اکابر پر عدم اعتماد

جدید دور جو بہت سے مسائل و خطرات لے کر آیا ہے ان میں سب سے بڑا خطرہ اور فتنہ اکابر پر عدم اعتماد ہے۔ اکابر سے عدم اعتماد ظاہر میں تو ایک معمولی چیز لگتی ہے لیکن اس میں غور کیا جائے تو یہی چیز دین کی بنیاد کو کمزور کردیتی ہے۔ دین اصل میں نام اکابر پر اعتماد کا ہے۔ آج تک کا تجربہ یہی ہے کہ جن لوگوں نے اکابر پر بے اعتمادی کی وہ کسی نہ کسی گمراہی میں مبتلا ہوئے۔ اکابر پر اعتماد دراصل اپنے عجز کا اظہار ہے جو تحقیق انہوں نے محنت سے کی اور اپنی زندگیاں جس میں صرف کیں اس کو حق سمجھنا اور ان پر بھروسہ کرناہے۔ بخلاف اکابر پر بے اعتمادی کہ اس میں اپنی بڑائی کا اظہار  اپنے آپ کو خیرکل اور اپنی سوچ کو صحیح سمجھنا ہے۔

امت میں جتنے فتنے ہیں اگر غور کیا جائے تو سب میں سلف بیزاری ہے۔ فتنہ خوارج سے لے کر آج تک جتنے بھی فتنے برپا ہوئے سب میں یہی چیز قدرِ مشترک ہے۔ بعض لوگ صحابہ سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ بعض صحابہ کے فیصلوں کو تنقیدی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ حضرت عمرؓ کے بعض فیصلوں کو عمر کا مارشل لاء کہہ دیتے ہیں۔ بعض لوگ نئی نئی چیزوں کو دین میں لا کر سمجھتے ہیں کہ ہم صحابہ سے بھی محبت میں بڑھے ہوئے ہیں ۔ ان سب میں قدر مشترک سلف سے بیزاری اور ان پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ اس لیے قرآن نے بھی ایسے لوگوں کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے {و یتبع غیر سبیل المؤمنین نولہ ماتولیٰ و نصلہ جھنم و ساء ت مصیراً} ’’جو مؤمنوں کا راستہ چھوڑ کر (یعنی سلف صالحین کی راہ چھوڑ کر) کوئی اور راستہ اختیار کر لے گا ہم اس کو اسی کے حوالے کریں گے اور اس کو جہنم میں داخل کریں گے اور وہ برا ٹھکانہ ہے۔‘‘ اﷲ ہمیں اس گمراہی سے محفوظ فرمائے اور سلف پر اعتماد عطا فرمائے کہ ان پر اعتماد میں ہی نجات اور ہر گمراہی سے حفاظت ہے۔

آج ہر فارغ التحصیل ہونے والا نوجوان اپنی سوچ کو زیادہ اہمیت دیتا ہے بنسبت اکابر کے فہم اور سوچ کے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم طرح طرح کے مصائب میں گھرتے چلے جاتے ہیں۔ ہمیں نکلنے کی کوئی راہ بھی نہیں ملتی ۔ ہماری ایسی سوچیں لوگوں کے لیے دین سے بیزاری کا بھی ذریعہ بن رہی ہیں۔ اﷲ ہم سب کو سلف کی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور مرتے دم تک اس پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں