عقیدہ توحید وحیات النبی ﷺ

دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:72

 سوال:  ہمارے  ہاں  توحید اور حیات النبی ﷺ کے متعلق اختلاف  ہوگیاہے کچھ  لوگ کہتے ہیں  کہ اللہ اپنے عرش پر موجود  ہے اور وہاں   سے ساری کائنات  کو چلارہاہے  اور کچھ لوف کہتے ہیں کہ اللہ ہر جگہ حاضر ناظر  اور موجود ہے  عرش پرا س  کا ایک خاص تسلط  ہے دوسرا یہ کہ کچھ لوگ  کہتے  ہیں کہ نبی پاک ﷺ مدینے والی قبر میں زندہ  ہیں اور جوان  کی قبر پر  جاکر درودوسلام  پڑھتا  ہے تو نبی پاک ﷺ خود سنتے اور جواب دیتے ہیں  جبکہ دوسرے لوگ یہ کہتے ہیں کہ  نبی پاک ﷺ جنت الفردوس  میں حیات  ہیں مدینے والی قبر  میں  نہیں ۔ تیسرا یہ کہ  کچھ لوگ  کہتے ہیں  کہ مردہ سنتا  ہے اور کچھ  کہتے ہیں  کہ مردہ نہیں سنتا ۔ مہربانی  فرماکر ان کی وضاحت کردیں ۔

فتویٰ نمبر :06

جواب : قرآن کریم میں ایک جگہ ہے   ” الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ ﴿٥﴾ طہ

 یعنی وہ  بڑی رحمت  والا عرش پرا ستوا فرمائےہوئے ہے اس سے معلوم ہو اکہ اللہ جل شانہ  عرش  پر استوا فرمائے  ہوئے ہیں  ،

قرآن کریم میں دوسری جگہ  ہے وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ   ( الحدید 4)  یعنی تم جہاں کہیں ہو وہ اللہ تمہارے ساتھ  ہے ، اس کا  تقاضا یہ ہے کہ  اللہ جل شانہ  ہر جگہ موجود  ہیں ،ا ن آیتوں  پر کس طرح  ایما ن  رکھنا  ضروری  جیسا کہ یہ وارد ہوئی ہیں ،یعنی یہ ایمان رکھنا  کہ اللہ جل شانہ  کے لیے استوا علی العرش بھی ثابت ہے اور وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ    بھی ثابت  ہے،ا ب ان کی کیفیت  اور حقیقت کیا ہے  تو وہ ہماری  محدود عقل  کے ادراک  سے باہر ہے اور چونکہ  یہ معاملہ اللہ جل شانہ کی ذات  وصفات  سے متعلق ہے اس لیے   اس میں ہم جیسوں  کے لیے بالکل بحث کی گنجائش نہیں ۔

 ( ب)  اہل سنت والجماعت  کا عقیدہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور دیگر حضرات  انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبروں میں دنیاوی جسد عنصری کے ساتھ زندہ ہیں ان کی حیات روحانی نہیں بلکہ جسمانی حیات ہے  جو حیات دنیاوی کے بالکل مماثل ہے  ، بجز  اس کے کہ وہ احکام کے مکلف نہیں ہیں ۔ ( کما فی المھند)

لہذا یہ کہنا کہ حضور اقدس ﷺ جنت الفردوس  میں زندہ ہیں ، قبر میں نہیں یہ بات درست نہیں ۔

(ج ) سماع موتی کا مسئلہ  حضرات صحابہ  اکرام  کے دور سے  مختلف فیہ چلا آرہاہے  یہ ہی وجہ  ہے کہ اس مسئلہ میں صحابہ کرام  کے دور سے آج تک  اختلاف پایا جاتا ہے  ، اب ا س مسئلہ  میں قول فصیل  یہ ہے کہ جن جگہوں  میں کسی روایت  سے سماع موتی ثابت ہے  اس کو تو تسلیم  کیاجائے اور جن جگہوں  میں قرآن  وحدیث خاموش ہیں تو وہاں  یہ  موقف اختیار  کیا جائے کہ نہ سماع موتی کا بالکلیہ اثبات  ہونہ ہی اس کی نفی کی جائے  لہذا سماع موتی کا  بالکلیہ  انکار کرنا  درست نہیں اور نبی کریم ﷺ کے سماع میں علماء اہل سنت  والجماعت کا اتفاق  ہے اس میں  کوئی اختلاف  نہیں ۔

فتح الباری  لابن حجر  ۔ (10/465 )

فتح الباری  لابن حجر ۔ ( 10/205)

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

اپنا تبصرہ بھیجیں