میں جب ضد میں آتا ہوں تو خدا کو بھی نہیں مانتا  یا خدا کو ماننے میں تردد ہوتا ہے کہنے سے بیوی کو طلاق نہیں ہوتی

فتویٰ نمبر:393

سوال:کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ عظام اس عورت کے بارے میں جس کا شوہر تارکِ صلوٰۃ ہے اور زوجہ کو بھی نماز پڑھنے پر مارتا ہے اور زوجہ کے ساتھ لڑائی ہونے کی صورت میں کفریہ الفاظ کہتا ہے مثلاً :”میں جب ضد پرآتا ہوں تو خدا کو بھی نہیں مانتا یا خدا کو ماننے میں تردد ہوتا ہے “علماء کو فحش گالیاں دیتے ہیں انکو بدنام کرنے میں کوشاں رہتے ہیں  زوجہ کو شرعی پردہ نہیں کرنے دیتے ،مردوں سے بات کرنے پر مجبور کرتے ہیں ،زوجہ کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ عالمہ ہے اور دین پر چلنے والی ہے ،گھر کا خرچہ بھی نہیں چلاتے ،زوجہ کو کہتے ہیں کہ ‘تم کما کر گھر چلاو’

زوجہ کو جسمانی اذیت کے ساتھ ذہنی اذیت بھی بہت دیتے ہیں تاکہ زوجہ تنگ آکر طلاق لے تو پھروہ  علماء و عالمات کو بدنام کرے ۔ دین کے بارے میں استہزاء کرے،دین کو بھی برا بھلا کہتے ہیں دین کو مانتے نہیں ہیں ۔

اس ماحول کا اثر یہ ہوا کہ زوجہ کا اب نماز پڑھنے کا دل نہیں چاہتا زبردستی ادا کرنی پڑتی ہے ذہنی اذیت اس قدر دیتے ہیں کہ زوجہ مجبور ہوکر حرام کام (خود کشی ) کرنا چاہتی ہے مگر اللہ رب العزت کا حکم جان کر نہیں کرتی  اور بعض اوقات ان حالات کی وجہ سے محسوس ہوتا ہے (زوجہ کو ) شاید ایمان ہی نہ چلا گیا ہو۔

محترم مفتی صاحب پوچھنا یہ ہیکہ کفریہ الفاظ کی وجہ سے نکاح ٹوٹتا ہے یا نہیں اگر نہیں توٹتا تو کیا طلاق لینی پڑے گی یا بغیر طلاق کے علیحدہ ہوجائے ۔اگر زوجہ علیحدگی اختیار کرتی ہے تو وہ دین کو بدنام کرے گا اگر زوجہ چپ بیٹھتی ہے تو اس صورت میں ایمان ختم ہونے کا اندیشہ ہے ۔

اگر علیحدگی چاہے تو دین کی اور علماء کی بدنامی ہوتی ہے تو اس صورت میں اسکو کیا کرنا چاہئیے مہربانی فرماکر جواب عنایت فرماکر دیں ۔

جزاکم اللہ خیراً احسن الجزاء فی الدارین

فقط طالبہ ٔ دعا ِ حسن خاتمہ

بنتِ سید اکبر شاہ

۷۔ذیقعدہ ۔۱۴۲۴ھ

یوم الاربعاء

الجواب حامداً ومصلیاً

سوال کو بغور پڑھا گیا اس میں جو کلمات ذکر کئے گئے ہیں وہ صراحۃً کفریہ کلمات نہیں ہیں ۔

مزید یہ کہ ان کلمات میں تاویل کی گنجائش بھی ہے ، اور کسی شخص پر کفر کا حکم لگانا انتہائی مشکل معاملہ ہے حضرات ِ فقہاء کرام ؒ تحریر فرماتے ہیں کہ اگر کسی جملہ میں بہت سے احتمال کفر کے ہوں اور ایک احتمال اسکے خلاف ہو تو اس جملہ کی بنا ء پر اس شخص پر کفر کا حکم نہیں لگایا جاسکتا (۱)۔

الدر المختار – (4 / 229)

 و  اعلم أنه لا يفتي بكفر مسلم أمكن حمل كلامه على محمل حسن…. إذا كان في المسألة وجوه توجب الكفر وواحد يمنعه فعلى المفتي الميل لما يمنعه

لہذا صورت ِ مسؤلہ میں مذکورہ الفاظ کی بناء پر نہ تو کفر کا حکم لگایا جائیگا اور نہ ہی نکاح ختم ہونے کا ۔

البتہ کسی شخص کا دین ،نماز ، علماء کے بارے میں زبان درازی کرنا انتہائی تشویشناک ہے ،ایسے شخص پر لازم ہے کہ وہ آئندہ ایسے جملہ کہنے سے باز رہے ۔

سائلہ نے شوہر کی جن زیادتیوں کا ذکر کیا ہے اگر وہ واقعۃً صحیح ہیں تو شوہر کا ایسا کرنا شرعاً ،عرفاً،اخلاقاً  ہر طرح سے قابلِ مذمت ہے ۔

عورت کو چاہئے کہ وہ پہلے اپنے طورپر اصلاح کی کوشش کرے اور اسے ان زیادتیوں سے باز رہنے پر آمادہ کرے ورنہ طلاق یا خلع دینے پر مجبور کرے اگر معاملہ اس طرح سے حل نہ ہو تو دونوں خاندان کے بڑے ملکر اس مسئلہ کو حل کریں ۔ اگر اس صورت میں بھی شوہر نہ تو عورت کی شکایات کے ازالہ کے لئے تیار ہو اور نہ ہی اسے طلاق یا خلع دینے پر تیار ہو تو ایسی صورت میں عورت اپنی شکایت عدالت میں لیجاکر عدالت کے ذریعہ شرعی شرائط کی رعایت کے ساتھ نکاح فسخ کراسکتی ہے(۲)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط

التخريج

(۱)الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (4 / 224)

وَفِي الْخُلَاصَةِ وَغَيْرِهَا: إذَا كَانَ فِي الْمَسْأَلَةِ وُجُوهٌ تُوجِبُ التَّكْفِيرَ وَوَجْهٌ وَاحِدٌ يَمْنَعُهُ فَعَلَى الْمُفْتِي أَنْ يَمِيلَ إلَى الْوَجْهِ الَّذِي يَمْنَعُ التَّكْفِيرَ تَحْسِينًا لِلظَّنِّ بِالْمُسْلِمِ

البحر الرائق، دارالكتاب الاسلامي – (5 / 134)

وَفِي الْخُلَاصَةِ وَغَيْرِهَا إذَا كَانَ فِي الْمَسْأَلَةِ وُجُوهٌ تُوجِبُ التَّكْفِيرَ وَوَجْهٌ وَاحِدٌ يَمْنَعُ التَّكْفِيرَ فَعَلَى الْمُفْتِي أَنْ يَمِيلَ إلَى الْوَجْهِ الَّذِي يَمْنَعُ التَّكْفِيرَ تَحْسِينًا لِلظَّنِّ بِالْمُسْلِمِ

(۲)جیساکہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے زوجہ متعنت سے خلاصی کی صورت حیلۂ ناجزہ  (ص :۱۶۴) میں ذکر کیا ہے  ۔

واللہ سبحانہ اعلم

کتبہ :محمد  مدنی عفی عنہ

دارالافتاء جامعہ معہد الخلیل الاسلامی بہادر آباد کراچی

۲۵ ذیقعدہ۔ ۱۴۲۴؁ ھ۱۸۔۱۔۲۰۰۴

اپنا تبصرہ بھیجیں