کیا وجہ ہے کہ اسلام نے کثرتِ ازواج (polygamy) یعنی ایک سے زیادہ شادیوں کو فروغ دیا؟
کیا وجہ ہے کہ مسلمان اپنے نبی کی طرح بارہ شادیاں نہیں کر سکتے؟
کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں کو چار شادیوں کی اجازت دی گئی؟ کیا یہ جنسی آزادی نہیں؟
کیا وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گیارہ شادیاں کیں؟ کیا ایک ہی بیوی انکے لِئے کافی نہیں تھی؟
کیا وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک نو سالہ لڑکی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے شادی کی جبکہ انکی عمر اس وقت صرف نو سال تھی؟ کیا یہ child abuse نہیں؟
یہ تمام سوالات ایک بار کسی غیر مسلم نے مجھ سے پوچھ کر اسلام اور نبی اکرم ﷺ کی شان میں گستاخانہ کلمات کہے تھے۔ جبکہ میرے پاس اسکے ان سوالات کا کوئی جواب نہیں تھا۔ میں انکا جواب سوچتا رہا اور بدگمان ہوتا رہا۔ لیکن الحمدللہ آج میں ان سوالات کا جواب آپ سب کو بھی بتا رہا ہوں تاکہ کسی کو بھی غیر مسلموں کے سامنے خفت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
یہ ایک انتہائی حیران کن بات ہے کہ غیر مسلموں کی جانب سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے کہ انہوں نے کثرتِ ازواج polygamy کو فروغ دیا اور اسلام نے اس کی بنیاد رکھی۔ غیر مسلموں کی طرف سے اسکی وجہ جنسی و جسمانی خواہشات اور شہوات بتائی جاتی ہے۔ لیکن اس بات سے پہلے ہم انہی غیر مسلموں کی طرف آنے والے انبیاء کی بات کرتے ہیں۔
یہودیوں اور عیسائیوں کی طرف نازل ہونے والی کتبِ آسمانی تورات اور انجیل جبکہ قرآن مجید سے بھی اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ سابق انبیاء بھی ایک بڑی تعداد میں بیویاں اور لونڈیاں رکھتے تھے۔ اس معاملے میں تورات، انجیل اور قرآن مجید سے جن انبیاء کا ذکر ملتا ہے انکے نام حضرت ابراہیم ، حضرت یعقوب ، حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہم السلام ہیں۔
Other Prophets Practiced Polygamy:
انجیل مقدسہ بیان کرتی ہے کہ سابق انبیاء کے لئے کثرتِ ازواج اللہ کی طرف سے ان پر ایک خاص نعمت تھی۔ انجیل مقدسہ کا گیارہواں باب، (آیات ۱ تا ۳) اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ بادشاہ سیلمان علیہ السلام کے پاس 700 بیویاں جبکہ 300 لونڈیاں تھیں۔ قدیم دور میں یہ ایک رواج تھا کہ جب دو بادشاہوں میں کوئی صلح نامہ مہر بند کیا جاتا تو کمتر بادشاہ اپنی بیٹی کی شادی برتر بادشاہ کے ساتھ کر دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی حضرت سلیمان علیہ السلام کوئی نیا صلح نامہ مہر بند کرتے تو انکی بیویوں میں ایک بیوی کا اضافہ ہو جاتا۔ ان بیویوں کو اور اس شادی کو دونوں بادشاہوں کے درمیان ایک پکی مہر یا “token of friendship” تصور کیا جاتا۔
{Scriptures 11:1-33}
انجیل ہی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ داؤد علیہ السلام کو دی جانے والی تمام نعمتیں اور تمام بیویاں ، اللہ کی مدد کا نتیجہ تھیں۔
حوالہ جات: {Sam. 5:12-13; 12:8; D &C 132:399}-
انجیل ہی بتاتی ہے کہ اللہ نے اپنے پیغمبروں کو ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کا حکم دیا۔ ان بیغمبروں میں ابراہیم، اسحاق، یعقوب اور دوسرے پیغمبر شامل ہیں۔ {D & C 132} اس بات کی بھی تصدیق کرتی ہے کہ قدیم اسرائیل کی تاریخ میں ایک سے زیادہ شادیاں کرنا ایک تسلیم شدہ قانون تھا اور اس پر عمل کرنے والے کو جنتوں میں بلند مقام کی بشارت دی جاتی تھی۔۔
اوپر دیئے گئے تمام حوالہ جات سے صاف پتہ چل جاتا ہے کہ سابق انبیاء بھی کثرت ازواج یعنی polygamy سے فائدہ اٹھا چکے تھے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سمیت دیگر انبیاء کو بھی اپنے پیروکاروں کی نسبت زیادہ شادیاں کرنے کی اجازت تھی۔ اور یہ محض جسمانی وجوہات کی وجہ سے نہیں بلکہ سیاسی اور مذہبی وجوہات کی وجہ سے تھا۔ یہ تمام انبیاء وہ ہیں جنہیں آج بھی یہود و نصاریٰ دل سے مانتے ہیں۔
“مسلمان اپنے نبی کے طریقے کے مطابق بارہ شادیاں کیوں نہیں کر سکتے”؟ اب اس بات پر حیران ہونا اسی طرح بے بنیاد ہے جس طرح اس بات پر حیران ہونا کہ یہودی اور عیسائی اپنے نبیوں کی سنت کے مطابق 700 شادیاں کیوں نہیں کر سکتے؟
Islam Didn’t Invent Polygamy but Only Regulated It—in Favor of Women!
اسلام نے کثرتِ ازواج polygamy کی ابتداء نہیں کی- بلکہ اسے مزید قابل عمل بنا دیا۔ اسلام سے قبل تک عربوں میں لاتعداد بیویاں اور لا تعداد لونڈیاں رکھنے کا رواج عام تھا۔ اسلام نے اس لاتعداد کو صرف 4 کی تعداد تک محدود کر دیا۔ جبکہ لونڈیوں کو آزاد کرنے پر motivate کیا گیا۔ جس جس آدمی کے پاس چار سے زیادہ بیویاں تھیں ان کو حکم دیا گیا کہ کوئی سی چار بیویاں رکھ لیں اور باقیوں کو طلاق دے دیں۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہیں کر سکتے تھے کیونکہ ان کی ازواج عام مسلمانوں پر حلال نہیں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کو مومنین کی ماں کا درجہ دیا گیا۔ اگر انہیں بھی طلاق دے دی جاتی تو ساری عمر وہ بنا شادی کے گزار دیتیں۔ جو کہ سراسر ظلم ہے۔
The Quran Is the Only Holy Book That Actually Says “Marry Only One”.
اسلام کا بنیادی اصول یک زوجی (monogamy) ہے، ناں کہ کثرتِ ازواج (polygamy).
“
اور اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں اُن میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کر لو”-
سورہ النساء۔آیت##3
کثرت ازواج polygamy اسلام میں حکم نہیں ہے بلکہ اسلام کی طرف سے یہ ایک رخصت ہے- ایک ایسی رخصت جس پر اپنے حالات کے مطابق خاص شرائط کے ساتھ عمل کیا جا سکتا ہے۔ اسلام کثرتِ ازواج کی رخصت محض اپنی جنسی خواہشات کی تسکین کے لئے نہیں دیتا۔ بلکہ اسلام اس بات کو زیادہ پسند کرتا ہے کہ اس سہولت کے ذریعے یتیم , طلاق یافتہ اور بیوہ عورتوں کی کفالت اور دلجوئی کی ذمہ داری اٹھائی جائے۔ اس طرح polygamy عورت کے خلاف نہیں بلکہ عورت کے حق ہی میں اللہ کا ایک قانون ہے۔ جس پر اسی صورت عمل کرنا چاہئے جب کوئی برابر انصاف کر سکے۔
قرآن ہی وہ واحد کتاب ہے جو کہتا ہے کہ تم ایک ہی شادی کرو۔
“لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ اُن کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو”-
سورہ النساء۔آیت#3
کثرتِ ازواج اسلام کی ایک رخصت ہے، ناں کہ حکم۔
Why Is the Exception of Polygamy Allowed in Islam?
کثرتِ ازواج کی رخصت بہت سی وجوہات کی بناء پر ہے۔ لیکن ہم یہاں اسی وجہ پر بات کرتے ہیں جس کو جواز بنا کر مغربی معاشرہ اسلام کا مذاق بناتا ہے۔
مغربی معاشرے کو دیکھا جائے تو وہاں بے پناہ جنسی آزادی ہے۔ وہاں عورت کو صرف اور صرف جنسی خواہشات پوری کرنے کی مشین سمجھا جاتا ہے۔ مغربی معاشرے میں یہ ایک عام سی بات ہے کہ ایک شادی شدہ مرد بیوی کے ہوتے ہوئے بھی دوسری عورتوں کے ساتھ جنسی تعلقات رکھتا ہے۔ ان تمام تعلقات میں عورت کو ہمیشہ پامالی اور ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایک سروے کے مطابق اگر متحدہ امریکہ کا ہر مرد صرف ایک ایک شادی پر اکتفا کرے تو تقریباً 25 لاکھ سے زائد خواتین ایسی بچتی ہیں جن کے لئے شوہر میسر نہیں رہتا۔ جبکہ 10 فیصد آبادی ہم جنس پرستوں کی اسکے علاوہ ہے۔ اس صورتحال میں غیر شادی شدہ عورت کے پاس صرف دو راستے رہ جاتے ہیں۔ پہلا راستہ یہ کہ وہ کسی شادی شدہ مرد سے ہی شادی کر لے۔ جبکہ دوسرا راستہ یہ ہے کہ وہ خود کو پبلک پراپرٹی سمجھ کر جنسی درندوں کے حوالے کردے۔ اسلام اس معاملے سے آنکھیں چرانے کی بجائے اسکا بہترین حل نکالتا ہے۔ اور ان دونوں راستوں میں سے پہلے راستے کا انتخاب کرتا ہے۔ اسلام عورت کی عزت اور حقوق کے تحفظ کے لئے اس بات کو زیادہ پسند کرتا ہے کہ وہ عورت کسی شادی شدہ مرد کی ہی بیوی بن کر باعزت مقام پائے۔ اسے وہ تمام حقوق بھی ملیں جو ایک بیوی کے حقوق ہوتے ہیں۔ لیکن اسکے برعکس ایک داشتہ کے نہ تو کوئی حقوق ہوتے ہیں اور نہ ہی اسکی کوئی عزت۔
لیکن آج وہی معاشرہ جو کہ اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے زنا اور ہم جنس پرستی کو تو جائز سمجھتا ہے لیکن ایک حلال راستے پر انگلیاں اٹھاتا ہے۔ بہت سی وجوہ میں سے یہ بھی ایک وجہ ہے جس کہ بنیاد پر اسلام 4 شادیوں کی اجازت دیتا ہے تاکہ عورت کے حقوق اور اسکی عزت محفوظ رہ سکے۔
Stages of the Prophet’s (peace and blessings be upon him) Married Life.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ کیا انکے لئے ایک ہی عورت کافی نہیں تھی؟ کیا یہ مٰعاذ اللہ جنسی خواہشات ہیں جن کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ شادیاں کر لیں؟
اسکا جواب جاننے سے پہلے یہ جان لینا بہت ضروری ہے کہ نبی کا کوئی بھی کام مصلحت سے خالی نہیں ہوتا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں اپنی ضروریات کو ہمیشہ کم سے کم رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج بھی ایسی نہیں تھیں کہ انہوں نے شاہانہ زندگی بسر کی ہو۔ بلکہ انہوں نے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ہی محنت اور قربانیوں سے بھرپور زندگی بسر کی۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جنسی خواہشات کا دعویٰ سراسر بے بنیاد دعویٰ ہے۔ آپ ایک پیغمبر ہونے کی حیثیت سے دین کی تبلیغ، جنگوں میں شرکت اور دیگر کاموں کے لئے اکثر ہی اپنے گھر اور بیویوں سے دور رہا کرتے تھے۔ ایسے حالات میں جنسی خواہشات کا دعویٰ سراسر مضحکہ خیز ہے۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قدم قدم پر دشمنوں کے وار کا بھی خدشہ رہتا تھا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ تر شادیاں اپنی عمر کے اس حصے میں کیں جب جنسی شہوات کوئی غالب عنصر نہیں رہتا۔
آپ ﷺ نے پہلی شادی 25 سال کی عمر میں کی۔ 25 سال کی عمر مبارک سے لیکر 50 سال کی عمر تک نبی اکرم ﷺ ایک ایسی خاتون کے ساتھ مخلص رہے جو آپ سے عمر میں نہ صرف 15 سال بڑی تھیں بلکہ اپنے سابق شوہر سے دو بچے بھی رکھتی تھیں۔ اگر محض جسمانی خواہشات ہی نکاح کا مقصد ہوتا تو رسول اللہ ﷺ کے لئے کنواری اور جوان لڑکیوں کی کوئی کمی نہ تھی جو کہ خود رسول اللہ ﷺ کو نکاح کی دعوت دے چکی تھیں۔ 25 سال تک آپ حضرت خدیجہؓ کے ساتھ رہے-. یہاں تک کہ جب رسول اللہ ﷺ کی عمر مبارک 50 سال ہوئی تو حضرت خدیجہؓ کا انتقال ہوگیا۔
رسول اللہ ﷺ ان سے بے انتہا محبت کرتے تھے- کیونکہ انہوں نے اس وقت آپ کا ساتھ دیا جب ہر کسی نے آپ کو جھٹلایا۔ 50 سال سے لیکر 52 سال کی عمر مبارک تک رسول اللہ ﷺ نے دو سال حضرت خدیجہ کو یاد کرتے کرتے اپنی بیٹیوں نے ساتھ تنہا گزار دیئے۔ اسکے بعد 53 سال کی عمر مبارک سے لیکر 60 سال کی عمر مبارک تک آپ ﷺ نے باقی سب نکاح کئے۔ یہاں ہر شخض اندازہ لگا سکتا ہے کہ عمر کے اس حصے میں
جنسی خواہشات کس حد تک انسان پر غالب آ سکتی ہیں۔
جب نبی اکرم ﷺ کی عمر مبارک 60 سال کو پہنچی تو اللہ تعالیٰ نے وحی کرکے آپ کو مزید کسی نکاح سے منع فرما دیا۔
“اس کے بعد تمہارے لیے دوسری عورتیں حلال نہیں ہیں- اور نہ اس کی اجازت ہے کہ ان کی جگہ اور بیویاں لے آؤ خواہ اُن کا حسن تمہیں کتنا ہی پسند ہو- البتہ لونڈیوں کی تمہیں اجازت ہے اللہ ہر چیز پر نگران ہے”-
سورہ الاحزاب۔آیت# 52
Reasons for the Prophet’s Marriages.
اب آتے ہیں اس سوال کی طرف کہ رسول اللہ ﷺ نے آخر بارہ شادیاں کیوں کیں؟
رسول اللہ ﷺ کی شادیوں کی وجوہات کو ہم دو درجات میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
۱۱- نبی اکرم ﷺ کو ایک محبت کرنے والی بیوی کی اور اولاد کی ضرورت تھی۔ چنانچہ آپ ﷺ نے حضرت خدیجہؓ سے نکاح کر لیا۔
۲۲- نبی اکرم ﷺ کی باقی تمام شادیوں کا مقصد اس پیغام کو پوری دنیا اور آئندہ نسلوں تک پہنچانا تھا جس کے لئے اللہ نے آپ ﷺ کو نبی بنا کر بھیجا تھا۔ اس مقصد کے لئے رسول اللہ ﷺ نے تمام عورتوں کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا۔
یہاں کچھ وجوہات بیان کرتے ہیں جن کی بناء پر رسول اللہ ﷺ نے باقی تمام نکاح کئے۔
1۔ آپ ﷺ دین اسلام کو آئندہ نسلوں تک پہنچانا چاہتے تھے۔ نبی اکرم ﷺ وہ واحد پیغمبر ہیں جن کی زندگی کا کوئی بھی پہلو راز میں نہیں رہا۔ آپ کی خلوت، جلوت، معاملات، معمولات، یہاں تک کہ اپنی ازواج کے ساتھ معاملات امت کے سامنے رکھ دئیے گئے۔ آپ کے صحابہ اور آپ کی ازواج مطہرات نے آپ کی زندگی کے ہر ہر پہلو کو یاد رکھا اور اسے امت تک پہنچایا- تاکہ تاقیامت امت اس کو عملی نمونہ مانتے ہوئے اس پر عمل کرے۔ اس امت کی عورتوں کے لئے یہ انتہائی فخر کی بات ہے کہ دین اسلام عورتوں کے کندھوں سے ہوتا ہوا آنے والی نسلوں کو پہنچا۔ احادیث کی 8 مستند کتابوں میں 3000 سے زائد احادیث اور روایات ایسی ہیں جو کہ رسول اللہ ﷺ کی ازواج ہی سے منقول ہیں۔
2- دوسرا مقصد یہ تھا کہ آپ ﷺ منتشر امت کے آپسی تعلقات کو مضبوط بنانا چاہتے تھے۔ قدیم قبائل میں یہ ایک روایت تھی کہ جب قبائل کے درمیان کوئی صلح نامہ ہوتا تو اسے مضبوط بنانے کے لئے دونوں قبائل ایک دوسرے کے ہاں شادیاں کر دیتے۔ یہی مصلحت تھی جس کی بناء پر آپ ﷺ کی وفات کے بعد آپ ﷺ کے چار انتہائی قریبی اصحاب کو خلیفہ کا درجہ ملا۔ اور انہوں نے اسلام کو انتہائی مشکل حالات میں دنیا کے ایک بہت بڑے حصے میں پھیلا دیا۔ ان میں سے دو خلفاء کی بیٹیاں آپ کے نکاح میں تھیں۔ حضرت ابوبکرؓ کی بیٹی عائشہؓ اور حضرت عمرؓ کی بیٹی حفصہؓ۔ جبکہ باقی دو خلفاء کے ہاں آپ کی تین بیٹیوں کا نکاح ہوا۔ حضرت عثمانؓ سے رقیہؓ اور زینبؓ کا نکاح ، جبکہ حضرت علیؓ سے فاطمہؓ کا نکاح ہوا۔
3۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے نکاحوں سے مسلمانوں کو عملی سبق دیا کہ نکاح کے لئے صرف کنواری اور جوان عورتوں کی طرف ہی نہ جائیں۔ بلکہ ان سے زیادہ غریب اور نادار بیوائوں، یتیم، طلاق یافتہ اور بڑی عمر کی عورتوں کو ترجیح دیں۔ اسلام اس بات کا حکم دیتا ہے کہ عورت کو اس کےخاندان کے مرد تحفظ دیں۔ اور اسکے سخت حالات میں ہر طرح سے اسکی کفالت کا فرض نبھائیں۔
4۔ ان تمام نکاحوں سے رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو عملی نمونہ بن کر دکھا دیا۔ آپ ﷺ نے کنواری اور جوان عورتوں سے نکاح کی بجائے زیادہ عمر کی، بیوہ اور طلاق یافتہ عورتوں سے نکاح کرکے عظیم مثال قائم کی۔ صرف ایک ہی کنواری اور کم عمر لڑکی حضرت عائشہؓ سے نکاح کیا۔ آپ نے تمام ازواج کے درمیان انصاف کرکے مسلمانوں کو انصاف کی عملی مثال دی۔ آپ نے برادری سے ہٹ کر غیر مذہب کے قبائل میں نکاح کئے۔ جسکا اثر یہ ہوا کہ صرف ایک نکاح کی وجہ سے پورے کا پورا قبیلہ مسلمان ہوتا رہا۔ جان کے دشمن قبائل دوست بن کر مسلمانوں کی طاقت میں اضافے کا سبب بنے۔ آپ ﷺ نے ثابت کر دکھایا کہ کس طرح تمام بیویوں میں برابر حقوق اور محبت بانٹی جاتی ہے۔
Can We Consider His Marriage to `Aisha a Case of Child Molestation?
حضرت عائشہؓ سے رسول اللہ ﷺ کے نکاح کو بہت سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے حضرت عائشہؓ کی عمر نکاح کے وقت سات برس تھی۔ جب ان کی عمر 9 سال ہوئی تو ہجرت کے دوسرے سال کے دوران ان کی باقاعدہ رخصتی کر دی گئی اور وہ رسول اللہ ﷺ کے گھر میں آگئیں۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ کی عمر مبارک 53 سال یا اس سے کچھ زیادہ تھی۔
اس معاملے کو سمجھنے میں سب سے بڑی غلط فہمی کی وجہ یہ ہے کہ ہم ساتویں صدی کے دور کو اپنی اکیسویں صدی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ جبکہ ساتویں صدی کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ نکاح بالکل بھی انوکھا نکاح نہیں تھا۔ نہ ہی اس دور میں کسی نے اس نکاح کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ بلکہ حضرت عائشہؓ کی بہن حضرت اسماءؓ کا نکاح بھی گیارہ سال کی عمر میں زبیر بن العوامؓ سے ہوا۔
یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ آج بھی گرم صحرائی علاقوں میں عورتوں کے ایامِ خاص، ٹھنڈے علاقے کی عورتوں کی نسبت زیادہ جلدی اور کم عمری میں ہی شروع ہو جاتے ہیں۔ آج بھی گرم صحرائی علاقوں کی عورتیں کم عمری میں ہی بالغ ہو جاتی ہیں اور نسبتاً کم عمری میں ہی بوڑھی بھی ہو جاتی ہیں۔ قدیم عرب میں 8 سے 9 سال تک کی عمر لڑکیوں کے بالغ ہونے کی ایک عام سی عمر تھی۔ عرب روایات کے مطابق (مذہب سے قطع نظر) تمام مذاہب کے لوگ خواہ وہ یہودی ہوں یا عیسائی، ذمی ہوں یا مشرک، سب کے سب اپنی لڑکیوں کے بالغ ہوتے ہی انکی شادیاں کر دیتے تھے۔ اس دور میں یہ ایک عام سی بات تھی کہ کم عمر لڑکیوں کو زیادہ عمر کے آدمیوں سے بیاہ دیا جاتا تھا۔
اعتراض کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے نکاح سے قبل حضرت عائشہؓ ایک کافر کی منگیتر تھیں۔ اسکا نام جبیر ابن مصعب ابن عدی تھا۔ اور اس نے مذہب کے فرق کی وجہ سے یہ منگنی ختم کر دی۔ جس کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت عائشہؓ کا نکاح رسول اللہ ﷺ سے کر دیا۔
The Great Wisdom in Selecting `A’ishah in Particular as a Young Wife.
اب آتے ہیں اس حکمت کی طرف جس کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے ایک کم عمر لڑکی حضرت عائشہؓ سے نکاح کیا۔
عائشہؓ ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں جو کہ مختلف علوم کو پڑھنے اور زبانی یاد کرنے کے اعتبار سے ایک مشہور گھرانہ تھا۔ آپ کے والد حضرت ابوبکرؓ کو عرب قبائل کے شجرہ نسب اور اشعار زبانی یاد ہوا کرتے تھے۔ ایسی ہی قابلیت حضرت عائشہؓ میں بھی تھی۔ یہی وہ قابلیت اور یہی وہ ذہانت تھی جس کی بنا پر حضرت عائشہؓ نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اپنی 7 سالہ ازدواجی زندگی کے دوران اسلامی تعلیمات کا ایک بہت بڑا حصہ یاد کر لیا۔ اور یہی وہ کم عمری تھی جس کی وجہ سے ان سات سال کی تعلیمات کی بنیاد پر حضرت عائشہؓ نے حضور ﷺ کی وفات کے بعد 47 سال تک دین اسلام کی تبلیغ کی۔ آپ نے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو وہی اسلامی تعلیمات پہنچائیں جو انہیں رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں ملی تھیں۔
آج حضرت عائشہؓ کو اسلام کی ایک عظیم مبلغہ مانا جاتا ہے۔ اور مسلمانوں کے دلوں میں بھی آپ ویسا ہی بلند مقام رکھتی ہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کے دل میں بھی آپ کو بلند مقام حاصل تھا۔ آپ ہی کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کہا کرتے تھے کہ اگر اس زمین پر مجھے کسی سے سب سے زیادہ محبت ہے تو عائشہ سے ہے۔ آپ ہی کے ساتھ مل کر رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسا عظیم اور محبت بھرا اسلامی گھرانہ بنایا جو آج بھی ہر مسلمان میاں بیوی کے لئے مشعلِ راہ ہے۔
اللہ آپ رضی اللہ عنہا کے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔ —
طالب دع
کیا وجہ ہے کہ مسلمان اپنے نبی کی طرح بارہ شادیاں نہیں کر سکتے؟
کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں کو چار شادیوں کی اجازت دی گئی؟ کیا یہ جنسی آزادی نہیں؟
کیا وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گیارہ شادیاں کیں؟ کیا ایک ہی بیوی انکے لِئے کافی نہیں تھی؟
کیا وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک نو سالہ لڑکی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے شادی کی جبکہ انکی عمر اس وقت صرف نو سال تھی؟ کیا یہ child abuse نہیں؟
یہ تمام سوالات ایک بار کسی غیر مسلم نے مجھ سے پوچھ کر اسلام اور نبی اکرم ﷺ کی شان میں گستاخانہ کلمات کہے تھے۔ جبکہ میرے پاس اسکے ان سوالات کا کوئی جواب نہیں تھا۔ میں انکا جواب سوچتا رہا اور بدگمان ہوتا رہا۔ لیکن الحمدللہ آج میں ان سوالات کا جواب آپ سب کو بھی بتا رہا ہوں تاکہ کسی کو بھی غیر مسلموں کے سامنے خفت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
یہ ایک انتہائی حیران کن بات ہے کہ غیر مسلموں کی جانب سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے کہ انہوں نے کثرتِ ازواج polygamy کو فروغ دیا اور اسلام نے اس کی بنیاد رکھی۔ غیر مسلموں کی طرف سے اسکی وجہ جنسی و جسمانی خواہشات اور شہوات بتائی جاتی ہے۔ لیکن اس بات سے پہلے ہم انہی غیر مسلموں کی طرف آنے والے انبیاء کی بات کرتے ہیں۔
یہودیوں اور عیسائیوں کی طرف نازل ہونے والی کتبِ آسمانی تورات اور انجیل جبکہ قرآن مجید سے بھی اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ سابق انبیاء بھی ایک بڑی تعداد میں بیویاں اور لونڈیاں رکھتے تھے۔ اس معاملے میں تورات، انجیل اور قرآن مجید سے جن انبیاء کا ذکر ملتا ہے انکے نام حضرت ابراہیم ، حضرت یعقوب ، حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہم السلام ہیں۔
Other Prophets Practiced Polygamy:
انجیل مقدسہ بیان کرتی ہے کہ سابق انبیاء کے لئے کثرتِ ازواج اللہ کی طرف سے ان پر ایک خاص نعمت تھی۔ انجیل مقدسہ کا گیارہواں باب، (آیات ۱ تا ۳) اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ بادشاہ سیلمان علیہ السلام کے پاس 700 بیویاں جبکہ 300 لونڈیاں تھیں۔ قدیم دور میں یہ ایک رواج تھا کہ جب دو بادشاہوں میں کوئی صلح نامہ مہر بند کیا جاتا تو کمتر بادشاہ اپنی بیٹی کی شادی برتر بادشاہ کے ساتھ کر دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی حضرت سلیمان علیہ السلام کوئی نیا صلح نامہ مہر بند کرتے تو انکی بیویوں میں ایک بیوی کا اضافہ ہو جاتا۔ ان بیویوں کو اور اس شادی کو دونوں بادشاہوں کے درمیان ایک پکی مہر یا “token of friendship” تصور کیا جاتا۔
{Scriptures 11:1-33}
انجیل ہی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ داؤد علیہ السلام کو دی جانے والی تمام نعمتیں اور تمام بیویاں ، اللہ کی مدد کا نتیجہ تھیں۔
حوالہ جات: {Sam. 5:12-13; 12:8; D &C 132:399}-
انجیل ہی بتاتی ہے کہ اللہ نے اپنے پیغمبروں کو ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کا حکم دیا۔ ان بیغمبروں میں ابراہیم، اسحاق، یعقوب اور دوسرے پیغمبر شامل ہیں۔ {D & C 132} اس بات کی بھی تصدیق کرتی ہے کہ قدیم اسرائیل کی تاریخ میں ایک سے زیادہ شادیاں کرنا ایک تسلیم شدہ قانون تھا اور اس پر عمل کرنے والے کو جنتوں میں بلند مقام کی بشارت دی جاتی تھی۔۔
اوپر دیئے گئے تمام حوالہ جات سے صاف پتہ چل جاتا ہے کہ سابق انبیاء بھی کثرت ازواج یعنی polygamy سے فائدہ اٹھا چکے تھے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سمیت دیگر انبیاء کو بھی اپنے پیروکاروں کی نسبت زیادہ شادیاں کرنے کی اجازت تھی۔ اور یہ محض جسمانی وجوہات کی وجہ سے نہیں بلکہ سیاسی اور مذہبی وجوہات کی وجہ سے تھا۔ یہ تمام انبیاء وہ ہیں جنہیں آج بھی یہود و نصاریٰ دل سے مانتے ہیں۔
“مسلمان اپنے نبی کے طریقے کے مطابق بارہ شادیاں کیوں نہیں کر سکتے”؟ اب اس بات پر حیران ہونا اسی طرح بے بنیاد ہے جس طرح اس بات پر حیران ہونا کہ یہودی اور عیسائی اپنے نبیوں کی سنت کے مطابق 700 شادیاں کیوں نہیں کر سکتے؟
Islam Didn’t Invent Polygamy but Only Regulated It—in Favor of Women!
اسلام نے کثرتِ ازواج polygamy کی ابتداء نہیں کی- بلکہ اسے مزید قابل عمل بنا دیا۔ اسلام سے قبل تک عربوں میں لاتعداد بیویاں اور لا تعداد لونڈیاں رکھنے کا رواج عام تھا۔ اسلام نے اس لاتعداد کو صرف 4 کی تعداد تک محدود کر دیا۔ جبکہ لونڈیوں کو آزاد کرنے پر motivate کیا گیا۔ جس جس آدمی کے پاس چار سے زیادہ بیویاں تھیں ان کو حکم دیا گیا کہ کوئی سی چار بیویاں رکھ لیں اور باقیوں کو طلاق دے دیں۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہیں کر سکتے تھے کیونکہ ان کی ازواج عام مسلمانوں پر حلال نہیں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کو مومنین کی ماں کا درجہ دیا گیا۔ اگر انہیں بھی طلاق دے دی جاتی تو ساری عمر وہ بنا شادی کے گزار دیتیں۔ جو کہ سراسر ظلم ہے۔
The Quran Is the Only Holy Book That Actually Says “Marry Only One”.
اسلام کا بنیادی اصول یک زوجی (monogamy) ہے، ناں کہ کثرتِ ازواج (polygamy).
“
اور اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں اُن میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کر لو”-
سورہ النساء۔آیت##3
کثرت ازواج polygamy اسلام میں حکم نہیں ہے بلکہ اسلام کی طرف سے یہ ایک رخصت ہے- ایک ایسی رخصت جس پر اپنے حالات کے مطابق خاص شرائط کے ساتھ عمل کیا جا سکتا ہے۔ اسلام کثرتِ ازواج کی رخصت محض اپنی جنسی خواہشات کی تسکین کے لئے نہیں دیتا۔ بلکہ اسلام اس بات کو زیادہ پسند کرتا ہے کہ اس سہولت کے ذریعے یتیم , طلاق یافتہ اور بیوہ عورتوں کی کفالت اور دلجوئی کی ذمہ داری اٹھائی جائے۔ اس طرح polygamy عورت کے خلاف نہیں بلکہ عورت کے حق ہی میں اللہ کا ایک قانون ہے۔ جس پر اسی صورت عمل کرنا چاہئے جب کوئی برابر انصاف کر سکے۔
قرآن ہی وہ واحد کتاب ہے جو کہتا ہے کہ تم ایک ہی شادی کرو۔
“لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ اُن کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو”-
سورہ النساء۔آیت#3
کثرتِ ازواج اسلام کی ایک رخصت ہے، ناں کہ حکم۔
Why Is the Exception of Polygamy Allowed in Islam?
کثرتِ ازواج کی رخصت بہت سی وجوہات کی بناء پر ہے۔ لیکن ہم یہاں اسی وجہ پر بات کرتے ہیں جس کو جواز بنا کر مغربی معاشرہ اسلام کا مذاق بناتا ہے۔
مغربی معاشرے کو دیکھا جائے تو وہاں بے پناہ جنسی آزادی ہے۔ وہاں عورت کو صرف اور صرف جنسی خواہشات پوری کرنے کی مشین سمجھا جاتا ہے۔ مغربی معاشرے میں یہ ایک عام سی بات ہے کہ ایک شادی شدہ مرد بیوی کے ہوتے ہوئے بھی دوسری عورتوں کے ساتھ جنسی تعلقات رکھتا ہے۔ ان تمام تعلقات میں عورت کو ہمیشہ پامالی اور ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایک سروے کے مطابق اگر متحدہ امریکہ کا ہر مرد صرف ایک ایک شادی پر اکتفا کرے تو تقریباً 25 لاکھ سے زائد خواتین ایسی بچتی ہیں جن کے لئے شوہر میسر نہیں رہتا۔ جبکہ 10 فیصد آبادی ہم جنس پرستوں کی اسکے علاوہ ہے۔ اس صورتحال میں غیر شادی شدہ عورت کے پاس صرف دو راستے رہ جاتے ہیں۔ پہلا راستہ یہ کہ وہ کسی شادی شدہ مرد سے ہی شادی کر لے۔ جبکہ دوسرا راستہ یہ ہے کہ وہ خود کو پبلک پراپرٹی سمجھ کر جنسی درندوں کے حوالے کردے۔ اسلام اس معاملے سے آنکھیں چرانے کی بجائے اسکا بہترین حل نکالتا ہے۔ اور ان دونوں راستوں میں سے پہلے راستے کا انتخاب کرتا ہے۔ اسلام عورت کی عزت اور حقوق کے تحفظ کے لئے اس بات کو زیادہ پسند کرتا ہے کہ وہ عورت کسی شادی شدہ مرد کی ہی بیوی بن کر باعزت مقام پائے۔ اسے وہ تمام حقوق بھی ملیں جو ایک بیوی کے حقوق ہوتے ہیں۔ لیکن اسکے برعکس ایک داشتہ کے نہ تو کوئی حقوق ہوتے ہیں اور نہ ہی اسکی کوئی عزت۔
لیکن آج وہی معاشرہ جو کہ اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے زنا اور ہم جنس پرستی کو تو جائز سمجھتا ہے لیکن ایک حلال راستے پر انگلیاں اٹھاتا ہے۔ بہت سی وجوہ میں سے یہ بھی ایک وجہ ہے جس کہ بنیاد پر اسلام 4 شادیوں کی اجازت دیتا ہے تاکہ عورت کے حقوق اور اسکی عزت محفوظ رہ سکے۔
Stages of the Prophet’s (peace and blessings be upon him) Married Life.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ کیا انکے لئے ایک ہی عورت کافی نہیں تھی؟ کیا یہ مٰعاذ اللہ جنسی خواہشات ہیں جن کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ شادیاں کر لیں؟
اسکا جواب جاننے سے پہلے یہ جان لینا بہت ضروری ہے کہ نبی کا کوئی بھی کام مصلحت سے خالی نہیں ہوتا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں اپنی ضروریات کو ہمیشہ کم سے کم رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج بھی ایسی نہیں تھیں کہ انہوں نے شاہانہ زندگی بسر کی ہو۔ بلکہ انہوں نے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ہی محنت اور قربانیوں سے بھرپور زندگی بسر کی۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جنسی خواہشات کا دعویٰ سراسر بے بنیاد دعویٰ ہے۔ آپ ایک پیغمبر ہونے کی حیثیت سے دین کی تبلیغ، جنگوں میں شرکت اور دیگر کاموں کے لئے اکثر ہی اپنے گھر اور بیویوں سے دور رہا کرتے تھے۔ ایسے حالات میں جنسی خواہشات کا دعویٰ سراسر مضحکہ خیز ہے۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قدم قدم پر دشمنوں کے وار کا بھی خدشہ رہتا تھا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ تر شادیاں اپنی عمر کے اس حصے میں کیں جب جنسی شہوات کوئی غالب عنصر نہیں رہتا۔
آپ ﷺ نے پہلی شادی 25 سال کی عمر میں کی۔ 25 سال کی عمر مبارک سے لیکر 50 سال کی عمر تک نبی اکرم ﷺ ایک ایسی خاتون کے ساتھ مخلص رہے جو آپ سے عمر میں نہ صرف 15 سال بڑی تھیں بلکہ اپنے سابق شوہر سے دو بچے بھی رکھتی تھیں۔ اگر محض جسمانی خواہشات ہی نکاح کا مقصد ہوتا تو رسول اللہ ﷺ کے لئے کنواری اور جوان لڑکیوں کی کوئی کمی نہ تھی جو کہ خود رسول اللہ ﷺ کو نکاح کی دعوت دے چکی تھیں۔ 25 سال تک آپ حضرت خدیجہؓ کے ساتھ رہے-. یہاں تک کہ جب رسول اللہ ﷺ کی عمر مبارک 50 سال ہوئی تو حضرت خدیجہؓ کا انتقال ہوگیا۔
رسول اللہ ﷺ ان سے بے انتہا محبت کرتے تھے- کیونکہ انہوں نے اس وقت آپ کا ساتھ دیا جب ہر کسی نے آپ کو جھٹلایا۔ 50 سال سے لیکر 52 سال کی عمر مبارک تک رسول اللہ ﷺ نے دو سال حضرت خدیجہ کو یاد کرتے کرتے اپنی بیٹیوں نے ساتھ تنہا گزار دیئے۔ اسکے بعد 53 سال کی عمر مبارک سے لیکر 60 سال کی عمر مبارک تک آپ ﷺ نے باقی سب نکاح کئے۔ یہاں ہر شخض اندازہ لگا سکتا ہے کہ عمر کے اس حصے میں
جنسی خواہشات کس حد تک انسان پر غالب آ سکتی ہیں۔
جب نبی اکرم ﷺ کی عمر مبارک 60 سال کو پہنچی تو اللہ تعالیٰ نے وحی کرکے آپ کو مزید کسی نکاح سے منع فرما دیا۔
“اس کے بعد تمہارے لیے دوسری عورتیں حلال نہیں ہیں- اور نہ اس کی اجازت ہے کہ ان کی جگہ اور بیویاں لے آؤ خواہ اُن کا حسن تمہیں کتنا ہی پسند ہو- البتہ لونڈیوں کی تمہیں اجازت ہے اللہ ہر چیز پر نگران ہے”-
سورہ الاحزاب۔آیت# 52
Reasons for the Prophet’s Marriages.
اب آتے ہیں اس سوال کی طرف کہ رسول اللہ ﷺ نے آخر بارہ شادیاں کیوں کیں؟
رسول اللہ ﷺ کی شادیوں کی وجوہات کو ہم دو درجات میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
۱۱- نبی اکرم ﷺ کو ایک محبت کرنے والی بیوی کی اور اولاد کی ضرورت تھی۔ چنانچہ آپ ﷺ نے حضرت خدیجہؓ سے نکاح کر لیا۔
۲۲- نبی اکرم ﷺ کی باقی تمام شادیوں کا مقصد اس پیغام کو پوری دنیا اور آئندہ نسلوں تک پہنچانا تھا جس کے لئے اللہ نے آپ ﷺ کو نبی بنا کر بھیجا تھا۔ اس مقصد کے لئے رسول اللہ ﷺ نے تمام عورتوں کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا۔
یہاں کچھ وجوہات بیان کرتے ہیں جن کی بناء پر رسول اللہ ﷺ نے باقی تمام نکاح کئے۔
1۔ آپ ﷺ دین اسلام کو آئندہ نسلوں تک پہنچانا چاہتے تھے۔ نبی اکرم ﷺ وہ واحد پیغمبر ہیں جن کی زندگی کا کوئی بھی پہلو راز میں نہیں رہا۔ آپ کی خلوت، جلوت، معاملات، معمولات، یہاں تک کہ اپنی ازواج کے ساتھ معاملات امت کے سامنے رکھ دئیے گئے۔ آپ کے صحابہ اور آپ کی ازواج مطہرات نے آپ کی زندگی کے ہر ہر پہلو کو یاد رکھا اور اسے امت تک پہنچایا- تاکہ تاقیامت امت اس کو عملی نمونہ مانتے ہوئے اس پر عمل کرے۔ اس امت کی عورتوں کے لئے یہ انتہائی فخر کی بات ہے کہ دین اسلام عورتوں کے کندھوں سے ہوتا ہوا آنے والی نسلوں کو پہنچا۔ احادیث کی 8 مستند کتابوں میں 3000 سے زائد احادیث اور روایات ایسی ہیں جو کہ رسول اللہ ﷺ کی ازواج ہی سے منقول ہیں۔
2- دوسرا مقصد یہ تھا کہ آپ ﷺ منتشر امت کے آپسی تعلقات کو مضبوط بنانا چاہتے تھے۔ قدیم قبائل میں یہ ایک روایت تھی کہ جب قبائل کے درمیان کوئی صلح نامہ ہوتا تو اسے مضبوط بنانے کے لئے دونوں قبائل ایک دوسرے کے ہاں شادیاں کر دیتے۔ یہی مصلحت تھی جس کی بناء پر آپ ﷺ کی وفات کے بعد آپ ﷺ کے چار انتہائی قریبی اصحاب کو خلیفہ کا درجہ ملا۔ اور انہوں نے اسلام کو انتہائی مشکل حالات میں دنیا کے ایک بہت بڑے حصے میں پھیلا دیا۔ ان میں سے دو خلفاء کی بیٹیاں آپ کے نکاح میں تھیں۔ حضرت ابوبکرؓ کی بیٹی عائشہؓ اور حضرت عمرؓ کی بیٹی حفصہؓ۔ جبکہ باقی دو خلفاء کے ہاں آپ کی تین بیٹیوں کا نکاح ہوا۔ حضرت عثمانؓ سے رقیہؓ اور زینبؓ کا نکاح ، جبکہ حضرت علیؓ سے فاطمہؓ کا نکاح ہوا۔
3۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے نکاحوں سے مسلمانوں کو عملی سبق دیا کہ نکاح کے لئے صرف کنواری اور جوان عورتوں کی طرف ہی نہ جائیں۔ بلکہ ان سے زیادہ غریب اور نادار بیوائوں، یتیم، طلاق یافتہ اور بڑی عمر کی عورتوں کو ترجیح دیں۔ اسلام اس بات کا حکم دیتا ہے کہ عورت کو اس کےخاندان کے مرد تحفظ دیں۔ اور اسکے سخت حالات میں ہر طرح سے اسکی کفالت کا فرض نبھائیں۔
4۔ ان تمام نکاحوں سے رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو عملی نمونہ بن کر دکھا دیا۔ آپ ﷺ نے کنواری اور جوان عورتوں سے نکاح کی بجائے زیادہ عمر کی، بیوہ اور طلاق یافتہ عورتوں سے نکاح کرکے عظیم مثال قائم کی۔ صرف ایک ہی کنواری اور کم عمر لڑکی حضرت عائشہؓ سے نکاح کیا۔ آپ نے تمام ازواج کے درمیان انصاف کرکے مسلمانوں کو انصاف کی عملی مثال دی۔ آپ نے برادری سے ہٹ کر غیر مذہب کے قبائل میں نکاح کئے۔ جسکا اثر یہ ہوا کہ صرف ایک نکاح کی وجہ سے پورے کا پورا قبیلہ مسلمان ہوتا رہا۔ جان کے دشمن قبائل دوست بن کر مسلمانوں کی طاقت میں اضافے کا سبب بنے۔ آپ ﷺ نے ثابت کر دکھایا کہ کس طرح تمام بیویوں میں برابر حقوق اور محبت بانٹی جاتی ہے۔
Can We Consider His Marriage to `Aisha a Case of Child Molestation?
حضرت عائشہؓ سے رسول اللہ ﷺ کے نکاح کو بہت سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے حضرت عائشہؓ کی عمر نکاح کے وقت سات برس تھی۔ جب ان کی عمر 9 سال ہوئی تو ہجرت کے دوسرے سال کے دوران ان کی باقاعدہ رخصتی کر دی گئی اور وہ رسول اللہ ﷺ کے گھر میں آگئیں۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ کی عمر مبارک 53 سال یا اس سے کچھ زیادہ تھی۔
اس معاملے کو سمجھنے میں سب سے بڑی غلط فہمی کی وجہ یہ ہے کہ ہم ساتویں صدی کے دور کو اپنی اکیسویں صدی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ جبکہ ساتویں صدی کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ نکاح بالکل بھی انوکھا نکاح نہیں تھا۔ نہ ہی اس دور میں کسی نے اس نکاح کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ بلکہ حضرت عائشہؓ کی بہن حضرت اسماءؓ کا نکاح بھی گیارہ سال کی عمر میں زبیر بن العوامؓ سے ہوا۔
یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ آج بھی گرم صحرائی علاقوں میں عورتوں کے ایامِ خاص، ٹھنڈے علاقے کی عورتوں کی نسبت زیادہ جلدی اور کم عمری میں ہی شروع ہو جاتے ہیں۔ آج بھی گرم صحرائی علاقوں کی عورتیں کم عمری میں ہی بالغ ہو جاتی ہیں اور نسبتاً کم عمری میں ہی بوڑھی بھی ہو جاتی ہیں۔ قدیم عرب میں 8 سے 9 سال تک کی عمر لڑکیوں کے بالغ ہونے کی ایک عام سی عمر تھی۔ عرب روایات کے مطابق (مذہب سے قطع نظر) تمام مذاہب کے لوگ خواہ وہ یہودی ہوں یا عیسائی، ذمی ہوں یا مشرک، سب کے سب اپنی لڑکیوں کے بالغ ہوتے ہی انکی شادیاں کر دیتے تھے۔ اس دور میں یہ ایک عام سی بات تھی کہ کم عمر لڑکیوں کو زیادہ عمر کے آدمیوں سے بیاہ دیا جاتا تھا۔
اعتراض کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے نکاح سے قبل حضرت عائشہؓ ایک کافر کی منگیتر تھیں۔ اسکا نام جبیر ابن مصعب ابن عدی تھا۔ اور اس نے مذہب کے فرق کی وجہ سے یہ منگنی ختم کر دی۔ جس کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت عائشہؓ کا نکاح رسول اللہ ﷺ سے کر دیا۔
The Great Wisdom in Selecting `A’ishah in Particular as a Young Wife.
اب آتے ہیں اس حکمت کی طرف جس کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے ایک کم عمر لڑکی حضرت عائشہؓ سے نکاح کیا۔
عائشہؓ ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں جو کہ مختلف علوم کو پڑھنے اور زبانی یاد کرنے کے اعتبار سے ایک مشہور گھرانہ تھا۔ آپ کے والد حضرت ابوبکرؓ کو عرب قبائل کے شجرہ نسب اور اشعار زبانی یاد ہوا کرتے تھے۔ ایسی ہی قابلیت حضرت عائشہؓ میں بھی تھی۔ یہی وہ قابلیت اور یہی وہ ذہانت تھی جس کی بنا پر حضرت عائشہؓ نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اپنی 7 سالہ ازدواجی زندگی کے دوران اسلامی تعلیمات کا ایک بہت بڑا حصہ یاد کر لیا۔ اور یہی وہ کم عمری تھی جس کی وجہ سے ان سات سال کی تعلیمات کی بنیاد پر حضرت عائشہؓ نے حضور ﷺ کی وفات کے بعد 47 سال تک دین اسلام کی تبلیغ کی۔ آپ نے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو وہی اسلامی تعلیمات پہنچائیں جو انہیں رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں ملی تھیں۔
آج حضرت عائشہؓ کو اسلام کی ایک عظیم مبلغہ مانا جاتا ہے۔ اور مسلمانوں کے دلوں میں بھی آپ ویسا ہی بلند مقام رکھتی ہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کے دل میں بھی آپ کو بلند مقام حاصل تھا۔ آپ ہی کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کہا کرتے تھے کہ اگر اس زمین پر مجھے کسی سے سب سے زیادہ محبت ہے تو عائشہ سے ہے۔ آپ ہی کے ساتھ مل کر رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسا عظیم اور محبت بھرا اسلامی گھرانہ بنایا جو آج بھی ہر مسلمان میاں بیوی کے لئے مشعلِ راہ ہے۔
اللہ آپ رضی اللہ عنہا کے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔ —
طالب دع