نکاح  کا بندھن اور طلاق

” طلاق” کے دو بول زبان سے نکالنا بہت آسان ہے ،لیکن اس کے اثرات نہایت مضر اور دورس ہیں۔ نکاح کا بندھن اتنا کمزور نہیں ہونا چاہیے کہ معمولی معمولی باتوں پر اس کو توڑدیا جائے ۔ عورت ایک نازل صنف اور ٹیڑھی پسلی سے پیدا ہونے والی ایک مخلوق ہے، اس لیے اس سے مزاج کے بالکل موافق چلنے کی امید نادانی اور حماقت ہے۔ ضد، جذباتیت ، ناشکری ، غصہ اور نزاکت عورت کی فطرت میں داخل ہیں ۔ عقل مند شوہر وہ ہے جو عورت کی فطرت سمجھے اور صبر وتحمل اور برداشت کا دامن کبھی نہ چھوڑے ۔
موجودہ معاشرے میں طلاق کی شرح جس رفتار سے بڑھ رہی ہے اس پر زعمائے ملت کو غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ غصہ ، کردار کا قاتل ہے ۔ غصہ ہی انسان کو حماقت اور غیر دانش مندانہ اقدامات پر مجبور کرتا ہے ۔ دنیا میں طلاق کے زیادہ تر واقعات غصہ اور اشتعال کی حالت میں ہی رو نما ہوتے ہیں اس لیے طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح پر قابو پانے کے لیے ضرورت اس کی ہے کہ معاشرے میں ” برداشت ” اور ” صبر وتحمل” کو رواج دیا جائے ۔ مشائخ طریقت کی جوتیاں سیدھی کرنا غصہ کا بہترین حل ہے ، ان کی بابرکت صحبت سے بھی ضرور استفادہ کیاجانا چاہیے ۔ طلاق کے بہت سے واقعات کا سبب طلاق کے الفاظ لا علمی بھی ہے :
1)میرا تجھ سے کوئی تعلق نہیں،میرا تجھ سے کوئی واسطہ نہیں۔ میں تیرا شوہر نہیں۔ میں نے تجھے فیصلہ دیدیا۔
2)میں نے تجھے آزاد کیا۔ تو مجھ پر حرام ہے۔ میری طرف سے تم فارغ ہو۔ تمہیں جواب دیدیا ۔ میں نے تجھے چھوڑڈیا وغیرہ ۔ ناواقف شوہر غصہ کی حالت میں یہ الفاظ زبان سے نکال دیتے ہیں ، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات بیوی کو شوہر کی نیت کے بغیر فی الفور طلاق ہوجاتی ہے ۔ ( نمبر 2،ا لفاظ ایسے ہی ہیں ) جبکہ بعض صورتوں میں شوہر کی نیت کو دیکھ کر طلاق کا فتویٰ دیاجاتا ہے (نمبر 1، ایسے ہی الفاظ پر مشتمل ہے) اس لیے ان جیسے الفاظ کے بارےمیں معلومات رکھنا بے حد ضروری ہے ۔ تاکہ غصہ کی حالت میں کوئی ایسا لفظ زبان سے سرزد نہ ہوجائے ۔
طلاق کے اکثر واقعات میں دیکھا یہ گیا ہے کہ شوہر بیک وقت تین طلاق دے بیٹھتا ہے ۔ بیک وقت تین طلاق دینا شرعا سخت گناہ ہے ۔ اس سے بیوی ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتی ہے اور دوبارہ نکاح کی واحد صورت یہ رہ جاتی ہے کہ طلاق کی عدت گزارنے کے بعد عورت کسی اور مرد سے نکاح اور اس کے لوازمات پورے کرنے کے بعد اس شخص سے طلاق حاصل کرے یا وہ شخص خود اس کو طلاق دے اور پھر عورت طلاق کی عدت گزارلے ۔ تین طلاق کی صورت میں اس کے علاوہ اور کوئی صورت دوبارہ نباہ کی نہیں ہے ۔ اس لیے تین طلاق دینے کی حماقت کسی صورت میں نہ کی جائے تاکہ تین طلاق کے بعد پیدا ہوجانے والی گھمبیر صورتحال اور اس سے بر آمد ہونے والے نقصانات سے بچا جاسکے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں