پلاٹ کی خرید وفروخت کا حکم

فتویٰ نمبر:08

سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ پلاٹ کی خریدوفروخت  کے  لیے کن  شرائط  کا پایاجانا ضروری ہے ؟ چونکہ میرا کاروباری تعلق پراپرٹی   کی خریدوفروخت  سے ہے اسی لیے میرے ذہن  میں چند سوالات تھے جن میں رہنمائی ضروری ہے ۔

  • اس خریدوفروخت  کے اندر بعض  دفعہ ہم پلاٹ کا بہانہ دے کر سودا پکا کرلیتے ہیں ۔ ا سمیں اکثر تو ایسا ہوتا ہے  کہ دس فیصد رقم فی الفور ادا کردی جاتی ہے اور کچھ دن کا ٹائم  لے کر مقررہ  دن مکمل رقم ادا کردی جاتی ہے  اور کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ پیمنٹ  کا انتظام  سودا کرتے وقت   نہیں ہوتا بلکہ پندرہ بیس  دن کے اندر رقم کا انتظام  کیاجاتا ہے  ،کیا یہ خریدوفروخت  جائز ہے ۔ا ور کیا صرف بیعانہ کی رقم دیکر  اس پلاٹ  یا گھر کو آگے فروخت کیاجاسکتا ہے ؟
  • ڈی ۔ ایچ۔اے ( D.H.A)  ایک مستندا دارہ ہے جس کے تحت  مختلف پلاٹ وغیرہ فروخت کئے جاتے ہیں اس ادارے نے ایک  پراجیکٹ   ڈی ۔ ایچ ۔ اے  سٹی کے نام سے شروع کیا ہے جس میں انہوں نے سولہ سیکٹر بنائے ہیں اور مختلف رقبے کے پلاٹ  خریدوفروخت کے لیے پیش کیے ہیں ۔ا س میں سیکٹر  5،3،7 کا مکمل نقشہ   پلاٹ  نمبراور گلی  وغیرہ سمیت  ہر چیز کا نقشہ شائع کردیاہے ۔ جبکہ بقیہ سیکٹر کے اندر پلاٹ کا نمبرو غیرہ تو ا س کے کا غذات  میں موجود ہیں  لیکن مکمل  نقشہ ودیگر چیزیں  ابھی تک شائع نہیں کیں ۔ البتہ باخبر ذرائع اورا س ادارے  کے متعلقہ لوگوں سے معلوم  ہو ا ہے کہ اس ادارے  کے پاس دیگر سیکٹروں کا  بھی مکمل نقشہ موجود ہے  جواپنی پالیسی  کے بغیروقفے وقفے سے شائع  کرتے رہیں گے ۔

 میراسوال یہ ہے کہ کیا اس  پراجیکٹ کے پلاٹوں کی خرید وفروخت  جائز ہے  اور کیا اس  کے اندر بھی  صرف بیانہ ادا کرتے مکمل ادائیگی   کے وقت سے پہلے کسی کو فروخت کرناجائز ہے ؟

الجواب حامداومصلیا ً

صورت مسئولہ  میں اگر  آپ پلاٹ یا  گھر کا سودا  پکا کرلیتے ہیں ، جبکہ  پلاٹ یا  گھر  متعین  ہو اور اس کی ایک قیمت  بھی باہمی رضامندی  سے طے کرلی جائے  اوروقت مقررہ  پر مکمل رقم کی ادائیگی  کرنے کا  وعدہ  کرلیتے ہیں تو ایسی  صورت میں آپ اس پلاٹ کے مالک  ہوجاتے ہیں  اگر چہ خریداری  کے وقت آپ کے پاس رقم کا انتظام نہ ہو۔پلاٹ کو خریدلینے کے بعد اسے قبضہ آگے فروخت کرنا جائز ہے ۔

البتہ گھر کے  بارے میں یہ تفصیل  ہے کہ اگر وہ زمین  پر بنا ہوا ہو تو ایسی صورت میں  وہ بھی پلاٹ  ہی کے حکم  میں ہے  کہ اسے قبضہ  سے پہلے  آگے فروخت  کرنا جائز ہے لیکن  اگر گھر زمین  پر نہ بناہوا ہو  بلکہ   اوپر کا کوئی فلیٹ ہو یا مکان  کے اوپر کا کوئی حصہ ( Portion )  ہو تو  اسے قبضہ سے پہلے فروخت  کرناجائز نہیں  ہے ۔

  • صورت مسئولہ میں جن پلاٹ کا محل وقوع واضح طور پر متعین  ہو کہ اس کے مشرق، مغرب ، شمال ، جنوب میں کیا گیاہے  تو ایسے پلاٹ  کو خرید کر آگے فروخت  کرناجائز ہے اگر چہ پوری  رقم کی ادائیگی  نہ کی گئی ہو لیکن  جن پلاٹ  کا محل وقوع واضح طور پر متعین  نہ ہو کہ اس کے مشرق ، مغرب ، شمال ، جنوب  میں کیا گیاہے  تو ایسے پلاٹ  کا محل وقوع  مجہول  ہونے کی وجہ سے اس کی خرید وفروخت جائز نہیں  ۔ ( ماخذہ التبویب :1667/14)

فی الحکم فی شرح مجلۃ الاحکام  ( 1/117)

بدائع الصنائع  ،دارالکتب  العلمیۃ ( 5/156)

فی الدرالمختار ۔ (5/147)

واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم

محمد عزیر قاسم

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم  کراچی 

4/ شعبان /1437ھ

12/مئی /2016

عربی حوالہ جات اور مکمل فتویٰ پی ڈی ایف فائل میں حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/554135308289052/

 

اپنا تبصرہ بھیجیں