سورۃ الانفال میں فتح ونصرت کے خدائی قوانین کا ذکر

فتح ونصرت کے خدائی قوانین
مسلمان ان فارمولوں پر عمل کرلیں تو ان کواللہ تعالی کی غیبی مددونصرت حاصل ہوسکتی ہے:
1۔اپنے اندرتقوی یعنی خداخوفی پیدا کرلیں۔ تقوی کی برکت سے اللہ تعالی تمہیں ’’فرقان‘‘ دے گا۔تمہارے گناہوں کو دور کردے گا اور تمہیں بخش دے گا۔‘‘ فرقان کیا ہے؟ فرقان ایک وسیع مفہوم کا حامل لفظ ہے۔حق وباطل میں فرق کرنے کی صلاحیت،شرح صدر،نورفراست، دل کا سکون،استقامت، اللہ کی مددونصرت،باطل پر دنیوی غلبہ ،آخرت کی کامیابی؛ یہ سبھی فرقان کے مفہوم میں داخل ہے۔
انسان جب گناہوں سے بچتا اور اعمال کی پابندی کرتا ہے تو اللہ تعالی یہ سارے انعامات اسے عطافرماتے ہیں۔ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقَانًا وَيُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيم [الأنفال: 29]
انسان کی فطرت میں مال اسباب، دھن دولت اور اولاد وازواج کی محبت ودیعت کردی گئی ہے۔مال واولاد کی یہ محبت کوئی بری چیز نہیں،بلکہ حدود کے اندر ہو تو بعض اوقات عبادت اور ثواب ہے ۔بس!جہاں ان محبتوں کا ٹکراؤ اللہ کے حکم کے ساتھ ہو تو وہاں انسان کو چوکنا رہنا چاہیے کہ یہی موقع اس کی آزمائش اورامتحان کا ہے۔تقوی کا امتحان ایسے ہی مواقع میں ہوتا ہے۔{ وَاعْلَمُوا أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ وَأَنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ } [الأنفال: 28]
2۔جہاں کسی فرد کے لیےنیک بننا ضروری ہے وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ وہ معاشرے کو نیکی کی ترغیب دے اور برائی سے روکے۔ایک شخص خود تو نیک ہے لیکن دوسروں کے دین وایمان کی کوئی فکر نہیں،یہ بہت بڑا جرم ہے۔ {وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً } [الأنفال: 25]
3۔خیرخواہی کاجذبہ پیدا کریں۔جواپنے لیے چاہتے ہیں وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے بھی چاہیں ، جو اپنے لیے ناپسند ہے وہی چیز اپنے مسلمان بھائی کے لیے بھی برا سمجھیں ۔{ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ} [الأنفال: 1]
4۔اطاعت حاکم کی صفت پیدا کریں۔ امیر کی اطاعت سے نکلنا سنگین گناہ ہے۔اس سے بڑے مفاسد جنم لیتے ہیں۔گناہ میں امیر کی اطاعت جائز نہیں۔ ایسے مواقع پر اصلاح کی نیت سے اچھی نیت اور بہتر طریقے سے حاکم کو سمجھایا جائے۔{وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ} [الأنفال: 1]
5۔اسلام دشمن عناصر سے جہاد کرتے رہیں۔کفر مغلوب رہے گا تو اسلام غالب رہے گا۔{وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ}
6۔جہاد کی تیاریوں سے کبھی غفلت نہ برتیں۔ہرقسم کے حربی آلات اورجنگی مہارتیں پیدا کرنے کی جتنا ممکن ہو کوشش کی جائے۔{ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ } [الأنفال: 60]
7۔حکومت کوچاہیے کہ وہ اسلامی افواج کے اندر جذبۂ جہاد پیدا کریں۔اسلام کی سربلندی کے لیے بہادری اور جذبۂ جانثاری بیدار کرنے کی مکمل کوشش کرے۔{ يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ} [الأنفال: 65]
8۔میدان جہاد میں دشمن کامقابلہ صبرواستقامت کے ساتھ اور اور ڈٹ کر کریں۔میدان جنگ سے بھاگنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے البتہ جنگی چال کے طور پر بھاگنا یا دشمن کی تعداد دوگنا سے بھی زیادہ ہو تو عارضی پسپائی جائز ہے۔ { يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبَارَ (15) وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلَّا مُتَحَرِّفًا لِقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيِّزًا إِلَى فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ } [الأنفال: 15، 16] { الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ أَلْفٌ يَغْلِبُوا أَلْفَيْنِ بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ} [الأنفال: 66]
9۔میدان جہاد میں ذکراللہ سے غافل نہ ہوں۔{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ} [الأنفال: 45]
10۔میدان جہاد میں ساتھیوں سے لڑنا جھگڑنا بالکل بھی نہ ہو،ورنہ اس کے بھیانک نقصانات ہوں گے۔{وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ} [الأنفال: 46]
11۔میدان کارزار میں بھروسہ اللہ ہی پر کرنا چاہیے ، اپنے اسباب ووسائل چاہے کتنے ہی زیادہ کبھی بھی وسائل کے گھمنڈ میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔{وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بَطَرًا وَرِئَاءَ النَّاسِ} [الأنفال: 47]
12۔امانت کی صفت اپنے اندر پیدا کریں۔ مال غنیمت اور کسی بھی امانت میں خیانت نہ کریں۔{ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ} [الأنفال: 27]
13۔مال غنیمت مسلمانوں کے لیے حلال ہے البتہ اس کی تقسیم شرعی طریقے سے کریں۔جس کاطریقہ یہ ہے کہ مال غنیمت میں سے پہلے بیس فی صدالگ کردیا جائے جواللہ ، رسول اور محتاجوں کا حق ہے،انعامات کی ادائیگی بھی اسی میں سے کی جائے گی۔اس کے بعد بقیہ اسّی فی صد مال فوجی جوانوں میں برابر تقسیم کردیا جائےگا۔پیدل کو ایک حصہ اور سوار کو دو حصے دیے جائیں گے۔{وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ} [الأنفال: 41] {فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلَالًا طَيِّبًا} [الأنفال: 69]
14۔اگر دشمن صلح کی پیشکش کرے اور صلح میں فائدہ نظر آرہا ہو توصلح قبول کرلینی چاہیے البتہ جہاں نقصان ہورہا ہو وہاں صلح نہیں کرنی چاہیے۔{ وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ} [الأنفال: 61]
15۔جنگی قیدیوں کے ساتھ کیامعاملہ برتاجائے ؟انہیں قیدمیں رکھاجائے،فدیہ لے کر آزاد کردیاجائے، بغیرمعاوضے کے آزاد کیاجائے یا اپنے مسلم قیدیوں کےساتھ ان کا تبادلہ کیاجائے؟یہ سب حالات اور مصالح پر موقوف ہے۔{مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ} [الأنفال: 67]
16۔دنیا کے اندرعسکری غلبہ حاصل کرنے کی اساس اعلی صفات اوربلنداخلاق ہے ۔ یہ صفات واخلاق جس قوم کے اندر ہوں گےوہ غالب ہوگی اور جو قوم ان صفات سے دور ہوگی،مغلوب ومجبورہوگی۔ یہ صفات دوسری قوموں نے اختیار کرلیں تو وہی دنیا کی حکمران بن گئیں۔یقین جانیے!مسلمان نہ بدلتے تو اللہ کا فیصلہ بھی نہ بدلتا، مسلمان بدل گئے اس لیے اللہ کا فیصلہ بھی بدل گیا۔کاش! مسلمان پھر سےخود کو بدلنے کی کوشش کریں!!! {ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَى قَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ} [الأنفال: 53]

اپنا تبصرہ بھیجیں