طلاق مغلظہ کے بعد عورت کا اسی مرد کے ساتھ رہنا۔

سوال: 1) اگر عورت کو معلوم ہو کہ اس کو طلاق مغلظہ ہو چکی ہے اور پھر بھی وہ اسی مرد کے ساتھ رہ رہی ہے تو اس کے لیے شریعت میں کیا وعیدیں ہیں

2) اور ہم عام لوگوں کے لیے کیا حکم ہے ،یعنی ان کے ساتھ کیا برتاؤ کریں؟
واضح رہے کہ یہ دونوں بوڑھے ہیں ،بہوں، پوتے، نواسوں والے ہیں۔
3) تو کیا عورت کا میکے ہی واپس جانا لازم ہے یا الگ الگ بیٹوں کے گھروں میں رہ سکتے ہیں،اس طرح کہ شوہر ایک بیٹے کے پاس رہے اور بیوی دوسرے بیٹے کے پاس رہے؟

الجواب باسم ملھم الصواب
1) اگر واقعی طلاق مغلظہ ہو چکی ہے تو نکاح ٹوٹ چکا ہے، وہ دونوں آپس میں ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہو چکے ہیں ،اب اس عورت کا اس مرد کے ساتھ بغیر حلالہ شرعیہ کے رہنا کسی صورت جائز نہیں ۔
ساتھ رہنے کی صورت میں اس عورت اور مرد دونوں پر وہ تمام وعیدیں لاگو ہوں گی جو ایک اجنبی یا غیر محرم کے ساتھ اختلاط اور ساتھ رہنے کی صورت میں لاگو ہوتی ہے۔

2) دوسرے مسلمانوں کے لیے ایسے معاملات میں حکم یہ ہے کہ وہ ان کو سمجھانے کی کوشش کریں ۔اگر نرمی سے وہ نہ مانیں تو ان سے قطع تعلقی کرنا جائز ہے ۔

3) عورت کا اس شوہر سے علیحدگی اختیار کرنا ضروری ہے ،خواہ میکے جائے یا اپنے دوسرے بیٹے کے گھر جائے ۔لہذا مذکورہ صورت میں اگر شوہر ایک بیٹے کے ساتھ رہتا ہے اور بیوی دوسرے بیٹے کے ساتھ تو یہ درست ہے۔
=============
حوالاجات
1)
(القرآن الکریم: البقرۃ، الآیۃ: 230)
فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۗ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۗ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ‎

(صحیح البخاری: 168/3)
“عن عائشة رضي الله عنها: جاءت امرأة رفاعة القرظي النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: كنت عند رفاعة، فطلقني، فأبت طلاقي، فتزوجت عبد الرحمن بن الزبير إنما معه مثل هدبة الثوب، فقال: «أتريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا، حتى تذوقي عسيلته ويذوق عسيلتك»، وأبو بكر جالس عنده، وخالد بن سعيد بن العاص بالباب ينتظر أن يؤذن له، فقال: يا أبا بكر ألا تسمع إلى هذه ما تجهر به عند النبي صلى الله عليه وسلم”

(مختصر القدوری: 159/1، ط: دار الکتب العلمیۃ)
“وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة أو اثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها”

(الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ: 255/10، ط: دار السلاسل)
٦ – ذهب الفقهاء إلى أن من طلق زوجته طلقة رجعية أو طلقتين رجعيتين جاز له إرجاعها في العدة۔۔۔أما إذا طلق زوجته ثلاثا، فإن الحكم الأصلي للطلقات الثلاث هو زوال ملك الاستمتاع وزوال حل المحلية أيضا، حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر، لقوله تعالى: {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} ”

2) (صحیح بخاری،کتاب التفسیر،حدیث نمبر :4677)
“اخبرني عبد الرحمن بن عبد الله بن كعب بن مالك، عن ابيه، قال: سمعت ابي كعب بن مالك، وهو احد الثلاثة الذين تيب عليهم: انه لم يتخلف عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة غزاها قط، غير غزوتين: غزوة العسرة، وغزوة بدر، قال: فاجمعت صدقي رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى، وكان کلما يقدم من سفر سافره إلا ضحى، وكان يبدا بالمسجد، فيركع ركعتين، ونهى النبي صلى الله عليه وسلم عن كلامي، وكلام صاحبي، ولم ينه عن كلام احد من المتخلفين غيرنا، فاجتنب الناس كلامنا، فلبثت كذلك حتى طال علي الامر، وما من شيء اهم إلي من ان اموت فلا يصلي علي النبي صلى الله عليه وسلم، او يموت رسول الله صلى الله عليه وسلم فاكون من الناس بتلك المنزلة، فلا يكلمني احد منهم ولا يصلي ولا يسلم علي، فانزل الله توبتنا على نبيه صلى الله عليه وسلم حين بقي الثلث الآخر من الليل، ورسول الله صلى الله عليه وسلم عند ام سلمة، وكانت ام سلمة محسنة في شاني، معنية في امري، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:” يا ام سلمة، تيب على كعب”، قالت: افلا ارسل إليه فابشره؟ قال:” إذا يحطمكم الناس فيمنعونكم النوم سائر الليلة، حتى إذا صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الفجر، آذن بتوبة الله علينا، وكان إذا استبشر استنار وجهه حتى كانه قطعة من القمر، وكنا ايها الثلاثة الذين خلفوا عن الامر الذي قبل من هؤلاء الذين اعتذروا، حين انزل الله لنا التوبة، فلما ذكر الذين كذبوا رسول الله صلى الله عليه وسلم من المتخلفين واعتذروا بالباطل، ذكروا بشر ما ذكر به احد، قال الله سبحانه: يعتذرون إليكم إذا رجعتم إليهم قل لا تعتذروا لن نؤمن لكم قد نبانا الله من اخباركم وسيرى الله عملكم ورسوله سورة التوبة آية 94 الآية.”
ترجمہ:
یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو جائے تو افسوس لوگوں کا یہی طرز عمل میرے ساتھ پھر ہمیشہ کے لیے باقی رہ جائے گا، نہ مجھ سے کوئی گفتگو کرے گا اور نہ مجھ پر نماز جنازہ پڑھے گا۔ آخر اللہ تعالیٰ نے ہماری توبہ کی بشارت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس وقت نازل کی جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں تشریف رکھتے تھے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا مجھ پر بڑا احسان و کرم تھا اور وہ میری مدد کیا کرتی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ام سلمہ! کعب کی توبہ قبول ہو گئی۔ انہوں نے عرض کیا۔ پھر میں ان کے یہاں کسی کو بھیج کر یہ خوشخبری نہ پہنچوا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ خبر سنتے ہی لوگ جمع ہو جائیں گے اور ساری رات تمہیں سونے نہیں دیں گے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھنے کے بعد بتایا کہ اللہ نے ہماری توبہ قبول کر لی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ خوشخبری سنائی تو آپ کا چہرہ مبارک منور ہو گیا جیسے چاند کا ٹکڑا ہو اور (غزوہ میں نہ شریک ہونے والے دوسرے لوگوں سے) جنہوں نے معذرت کی تھی اور ان کی معذرت قبول بھی ہو گئی تھی۔ ہم تین صحابہ کا معاملہ بالکل مختلف تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری توبہ قبول ہونے کے متعلق وحی نازل کی، لیکن جب ان دوسرے غزوہ میں شریک نہ ہونے والے لوگوں کا ذکر کیا، جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جھوٹ بولا تھا اور جھوٹی معذرت کی تھی تو اس درجہ برائی کے ساتھ کیا کہ کسی کا بھی اتنی برائی کے ساتھ ذکر نہ کیا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا «يعتذرون إليكم إذا رجعتم إليهم قل لا تعتذروا لن نؤمن لكم قد نبأنا الله من أخباركم وسيرى الله عملكم ورسوله‏» کہ ”یہ لوگ تمہارے سب کے سامنے عذر پیش کریں گے، جب تم ان کے پاس واپس جاؤ گے تو آپ کہہ دیں کہ بہانے نہ بناؤ ہم ہرگز تمہاری بات نہ مانیں گے! بیشک ہم کو اللہ تمہاری خبر دے چکا ہے اور عنقریب اللہ اور اس کا رسول تمہارا عمل دیکھ لیں گے۔“ آخر آیت تک۔”

فقط-واللہ تعالی اعلم بالصواب
قمری تاریخ:22ربیع الاول ،1444ھ
شمسی تاریخ:19,اکتوبر ،2022ء

اپنا تبصرہ بھیجیں