میں نے تمہیں پہلے طلاق دے دی تھی کا حکم

سوال: مجھے میرے شوہر نے تقریبا تین ہفتہ پہلے مجھے یہ کہا کہ میں نے تمہیں پہلے طلاق دے دی تھی یعنی میرا جو بڑا بیٹا ہے اس سے پہلے دے دی تھی ۔
تم یہاں سے جا کیوں نہیں رہی ہو اپنے ماں باپ کے گھر چلی جاؤ ۔
دوسری بار پھر تقریبا ایک ہفتہ ٹہر کر یہ کہہ دیا کہ جاؤ تم میری طرف سے فارغ ہو ۔
اب یہ تین چاردن پہلے کی بات ہے میری بیٹی کی طبیعت خراب تھی تو میں نے کہا کہ جاؤ اپنے بابا کے ساتھ جا کر دوائی لے آؤ تو جانے سے پہلے کہتا ہے کہ میں نے اس کو طلاق دے دی تھی یہ جا کیوں نہیں رہی یہاں سے ۔
موڈ اسکا خراب تھا ہماری ناراضگی چل رہی تھی میں اسکو کھانا وغیرہ بھی نہیں پوچھ رہی تھی موڈ اسکا ایسا تھا مقصد دھمکانا تھا یہ دھمکی سے ڈر جاے گی اور غصہ میں تھے اور غصہ کے ساتھ نفرت بھی ہوتی ہے ایک بندہ کے ساتھ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الجواب باسم ملهم الصواب

صورت مسئولہ جب شوہر نے پہلی مرتبہ کہا کہ ”میں نے تمہیں پہلے طلاق دے دی تھی“ تو اس سے گویا اس نے طلاق دینے کی خبر دی اور اس سے ایک طلاق رجعی واقع ہو گئی۔

پھر دوسری بار جب غصہ میں بیوی کو یہ الفاظ کہے  کہ ’’تم میری طرف سے فارغ ہو‘‘ تو ان الفاظ سے ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی اور نکاح ٹوٹ گیا۔

پھر جب تیسری بار یہ کہا کہ ”میں نے اس کو طلاق دے دی تھی“ تو یہ لغو ہو گئے اور گویا یہ اسی طلاق دینے کی خبر تھی۔ اس سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہو گی ۔

لہذا دو بائن طلاقیں واقع ہوگئی ہیں اب میاں بیوی عدت کے اندر یا عدت (حمل نہ ہونے کی صورت میں تین ماہواریوں) کے بعد باہمی رضامندی سے گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ تجدیدِ نکاح کرکے رہ سکتے ہیں۔
ورنہ عدت کے بعد عورت دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔
  آئندہ کے لیے شوہر کو صرف ایک طلاق کا حق حاصل ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔ ”ولو أقر بالطلاق کاذبا أو ھازلا وقع قضاء۔“
(ردالمختار علی الدر المختار، کتاب الطلاق،مطلب فی المسائل التی تصح مع الاکراہ ،236/3 )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2۔ومایصلح جواباً وشتماً خلیة ،بریة، بتة،بتلة، بائن حرام …  ففی حالة الرضاء لایقع فی الفاظ كلها الا بالنیة۔

( عالمكيريه فتاوي الهنديه 1/ 374، 375)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

3۔وإذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها ” لأن حل المحلية باق لأن زواله معلق بالطلقة الثالثة فينعدم قبله”.

(الھدایۃ: 2/ 257)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
4۔فقہا کی اصطلاح میں مذاکرہ طلاق کا مطلب یہ ہے کہ بیوی یا بیوی کی طرف سے کوئی طلاق کا مطالبہ کرے یا پہلے سے کوئی طلاق دی ہواور پھر الفاظ کنایہ سے میں سے کوئی الفاظ کہہ دے تو بلا نیت طلاق واقع ہوجاتی ہے ۔
(فتاوی دارالعلوم زکریا 4/ 139)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واللہ تعالی اعلم بالصواب
25 رجب 1444ھ
17 فروری 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں