اپنی زندگی پہچانیں

از- طارق علی عباسی

تدبیر بھی تقدیر ہی کا حصہ ہے،

بھاگ دوڑ، مستقل جستجو تھکا دینے والی محنت، کارِ گراں، بارِ خاطر،

یہ سب نصیب کو کھینچ لانے میں معاون بنتے ہیں، ضروری نہیں کہ بس ایسا ہی ہو،

بلکہ تکوینی امر تو بس یہی ہے کہ دنیا اسباب سے جڑی ہے،

ایک سبب کا دوسرے سبب کے ساتھ بڑا اہم جوڑ اور ربط ہوتا ہے،

اہلِ نظر جانتے ہیں کہ سموات والارض کے درمیان کس طرح کا ربط ہے،

انسان خود اپنے آپ پر نظر ڈالے سر سے لیکر پاؤں تک وہ کتنا مربوط بنایا گیا ہے،

قدرت کی تخلیق کردہ فطرتی چیزوں میں بے باریک سے باریک سا بھی ربط ہوتا ہے،

بے ترتیبی کیوں پیدا ہوتی ہے؟

اسی لیے کہ سبب کا کما حقہ علم نہیں ہوتا،

سبب بالآخر مسبب الاسباب کی بارگاہِ عالی میں لاکر کھڑا کرتا ہے،

جہاں پر عقل کی رسائی نہیں،

جہد و جستجو کی مجال نہیں،

وہاں پر تو بس ترانۂ کُن کی کارفرمائی ہوتی ہے،

کن سے موجودات کو وجود ملا،

عالمِ رنگ و بو کا احساس ہوا،

آدمیت کو فروغِ حیات ملی،

اگر کوئی پوچھے کہ زندگی کیا ہے تو اسکا جواب بس یہی ہے کہ امرِ خداوندی کے سانچے میں ڈھل کر رضا بالقضاء کا عملی ثبوت دینا ہی زندگی ہے،

جس طرح

دھوپ سے بچنے کے لیے سایہ دار درخت کی چھاؤں میں بیٹھنے کے بعد تھکن اترتی ہے،

اور جسم کو سکون و راحت میسر ہوتا ہے،

اسی طرح یہی احساس ایک مؤمن کو بھی ملتا ہے جب وہ امرِ خدواندی بجا لاتا ہے، اپنی مرضی کو خدا کی مرضی میں فنا کرتا ہے،

زندگی ایک احساس ہے خود کو محسوس کرنے کا،

زندگی ایک ادھورا خواب ہے، جسے پورا کرنا ہے،

زندگی ایک ایسی امنگ اور آرزو ہے جسکو حاصل کرنے کی محنت کرنی ہے،

زندگی سبق سیکھنے سے لیکر اسکا امتحان دینے تک اور آخرت میں برے بھلے کا بدلا ملنے کا نام ہے،

جب آدمی کے سامنے کوئی وژن ہوتا ہے تو وہ تکھتا نہیں؟

احساس کمتری کا شکار نہیں ہوتا ہے؟

اپنے خیالوں کو سعیءِ مسلسل کے ذریعے پانی دیتا رہتا ہے،

شعوری کیفیتوں کو کمزور ہونے نہیں دیتا،

اجتماعی سطح پر انفرادیت کی قوت کو بھولتا نہیں، کہے کو کیے میں تبدیل کرنے کی وافر مقدار میں صلاحیت رکھتا ہے،

کامیابی کی ضمانت یقین پیہم ہی ہے،

مؤمن کی نظر جب مسبب الاسباب پر ٹک جاتی ہے تو بعد میں اور کہیں وہ نظر ہی نہیں ڈالتا،

کیا کوئی بینا اندھے کے دیکھے پر اعتماد کر سکتا ہے؟

اسی طرح کیا کوئی دنیا کی کچھ دن کی زندگی کے بدلے ابدی زندگی کا سودا کر سکتا ہے؟

اگر دنیا اور آخرت کا آپس میں ٹکراؤ ہوجائے تو ایمان کا یہی تقاضا ہے کہ آخرت کو بہرحال ترجیح دینی چاہیے،

اگر ہم عقل سے کام لیں تو معلوم ہوجائیگا کہ ہم کتنے ہٹ دھرم ہیں،

ضدی ہیں،

من مانی کی انتہائیوں پر پہنچے ہوئے ہیں،

سعیءِ لاحاصل میں لگے ہوئے ہیں،

زندگی کارِ بیکار میں گذار رہے ہیں،

ایک گرنے والی دیوار پر ٹیک لگائے آسرا کیے بیٹھے ہیں، کیا دنیا دھوکے کا گھر نہیں؟ کیا اسی کی خاطر جستجو کرنا کھلا گھاٹا نہیں؟

کیا ایک پھسپھسی سی آواز کے بدلے میں ازلی آواز کو بھلا ڈالنا حماقت نہیں؟

کیا گَھٹنے اور مِٹنے والے حسن پر فریفتہ ہونا بھی کوئی عقلمندی ہے؟

کیا مال و دولت اور اسباب دنیا یاد خدا سے غافل نہیں کرتے؟ 

بشارتوں کے مستحق ہیں وہ بندے جو زندگی کو امانتِ خداوندی سمجھتے ہیں، امانتوں کے امین بنتے ہیں،

ورنہ غافلین کے لیے اکبر مرحوم کا یہ شعر ہی کافی ہے،

جو محو ہیں کبر و زینت میں عقبی و خدا سے غافل ہیں

اربابِ بصیرت کے آگے حشرات الارض میں داخل ہیں

لہٰذا مؤمین کو اپنا آپ پہچانا ان پر ایمانی حق بھی بنتا ہے،

اور دنیا میں آنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اللہ جل مجدہ کے احکامات کی تعمیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے،

تاکہ مؤمن بندہ جب یہاں سے رخصت ہو تو نفسِ مطمئن کا مقام پاکر ہی وداع کرے،

اور اس سے رب بھی راضی ہو،

یہ بھی راضی ہو،

اور بندگانِ خدا کے جُھرمٹ میں حاضر ہوکر اسکی جنت میں داخل ہو،

حُسن مآب تو آخرت ہی میں ہے،

ضروری ہے کہ دنیاوی زندگی کے ذریعے اُخروی زندگی بنائی اور سنواری جائے،

دنیاوی چند لمحوں کی دھوکے باز زینت میں پڑ کر جنت الفردوس کی تا ابد تک تازہ رہنے والی نعمتوں کی بہتری کو نہ بھولنا چاہیے،

ہمیں اپنے آخری انجام کی فکر دامن گیر رکھنی چاہیے، دنیا کو آخرت کی کھیتی جانیں،

دنیا کی بہار چند روزہ ہے،

اعمالِ حسنہ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیں،

مصائب و آلام میں صبر جمیل سے کام لیں،

سچ بولیں،

اور ٹھیک تولیں،

کیونکہ سچ جنت میں لے جاتا ہے،

اور ظلم اندھیروں میں گراتا ہے،

ہمیں چاہیے کہ ہم اطاعت شعار بنیں،

تکبر سے بچیں،

اور آخرت کو آباد کرنے والی راہیں چلیں،

مال کو حلال طریقے سے کماکر حلال دائرے میں خرچ کریں،

تادمِ آخر خداوند تعالی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہیں،

آئیے ہمیں ایک سوچ بنالینی چاہیے کہ اپنی دنیاوی زندگی کو قیمتی جان کر آنے والی ابدی زندگی کو سعید بنانے لیے اللہ تبارک و تعالی کے احکامات پر عمل پیرا ہوں، اور نبی آخر زماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلم کے بتلائے ہوئے نقوش پر جان نچھاور کریں،

اپنا تبصرہ بھیجیں