بیٹی کے نام گھر کرنا تاکہ رشتہ دار قبضہ نہ کریں

سوال: السلام علیکم ورحمتہ اللہ
ایک فیملی ہے جن کی اولاد میں صرف ایک ہی بیٹی ہے ۔
ان کا ایک گھر ہے جس میں وہ رہتے ہیں اور ایک فلیٹ بھی ہے۔ شوہر اور بیوی دونوں کے کافی سارے بہن بھائی اور رشتے دار ہیں۔ فلیٹ بیوی کے نام پر ہے۔اب یہ میاں بیوی چاہتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں وہ فلیٹ بیٹی کے نام کر دیں تاکہ بعد میں رشتے دار قبضہ نہ کرلیں۔
کیا اپنی زندگی میں ان کااس طرح گھر اور فلیٹ بیٹی کے نام کرنا جائز ہے۔ناجائز تو نہیں۔

الجواب باسم ملہم الصواب

صورتِ مسئولہ میں اگر بیٹی کو گھر کی ضرورت ہو اور اس کے پاس اپنی رہائش کا انتظام نہ ہو جبکہ دیگر ورثاء کے پاس اپنی اپنی رہائش کا انتظام ہو اور آپ کے پاس اس گھر کے علاوہ بھی کوئی اور چیزیں بھی ہوں جو دیگر ورثاء کے حصے میں آجائیں تو اس صورت میں آپ کا اپنی بیٹی کو اپنا فلیٹ ہدیہ کرنا جائز ہے بشرطیکہ دیگر ورثاء کو محروم کرنے کی نیت نہ ہو البتہ ہبہ کے درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ
جو چیز ہدیہ کی جائے اس کا مالک بنا کر قبضہ میں بھی دے دی جائے لہذا صرف بیٹی کے نام کرنے سے بیٹی مالک نہیں بن جائے گی بلکہ ضروری ہوگا کہ آپ اس کومالک بنا کر قبضہ بھی دیں۔
———————-
حوالہ جات :

1.عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” مَنْ فَرَّ مِنْ مِيرَاثِ وَارِثِهِ ، قَطَعَ اللَّهُ مِيرَاثَهُ مِنَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ”
(ابن ماجہ: 2703)
ترجمہ:انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنے وارث کو میراث دلانے سے بھاگے، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے جنت کی میراث نہ دے گا“۔
———————

1.وتتم الہبۃ بالقبض الکامل۔
(الفتاوی شامیہ : جلد 8،صفحہ 493)

2.”(و) شرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول) …. وفي الأشباه: هبة المشغول لا تجوز.”
( الفتاوی شامیہ: جلد 5، صفحہ688-691)

3.رجل وھب فی صحتۃ کل المال للولد جاز فی القضا ویکون اثما فیما صنع کذا فی فتاوی قاضی خان۔
(فتاوی ھندیہ: جلد 4، صفحہ 397)

4.”ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك…. لا بأس به إذا لم يقصدبه الإضرار وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي الابن.”
(فتاوی شامیہ: جلد 4، صفحہ 444)

5.وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى.”
(قوله: وعلیه الفتوی) أي قول أبي یوسف من أن التنصیف بین الذکر والأنثی أفضل من التثلیث الذي هو قول محمد رملي.”
(فتاوی شامیہ: جلد 5، صفحہ 696)
———————-
1. وراثت مرنے کے بعد تقسیم ہوتی ہے، زندگی میں والدین اپنی اولاد کو جو کچھ دیتے ہیں، وہ ان کی طرف سے عطیہ ہے، اس کو وراثت سمجھنا صحیح نہیں، اور وارثوں میں کسی وارث کو محروم کرنے کی وصیت کرنا بھی جائز نہیں۔ البتہ اگر وارث سب عاقل و بالغ ہوں تو اپنی خوشی سے ساری وراثت ایک وارث کو دے سکتے ہیں، والدین اپنی اولاد کو جو عطیہ دیں اس میں حتی الوسع برابری کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔
(آپ کے مسائل اور ان کا حل: جلد6 صفحہ 417-418)

2.اگر کوئی اولاد کے ہوتے ہوئے اولاد کو محروم کرنے کی نیت سے کسی شخص کو ہبہ کرے تو یہ شخص گناہ گار ہے۔
(کفایت المفتی: جلد 8، صفحہ 171)

3.بعض اولاد کو ہبہ کرنا اور بعض کو نہ کرنا ناجائز ہے۔عورتوں یا چھوٹی اولاد کو محروم رکھنے کی غرض سے بڑے لڑکے کو ہبہ کرنا حرام اور ظلم ہے۔
(کفایت المفتی: جلد 8، صفحہ 169)

4.ورثہ کو محروم کرنا سخت گناہ کا کام ہے۔
(فتاوی رحیمیہ: جلد 9، صفحہ 326)
————————
واللہ اعلم بالصواب
13دسمبر2022
18جمادی الاول1444

اپنا تبصرہ بھیجیں