فقہ المیراث

سوال: محترم جناب مفتیان کرام!
السلام عليكم ورحمة الله!
ہم 6 بہنیں اور ایک بھائی ہیں ، ایک بہن کی شادی ہوئی ہےوالد صاحب نے ہم باقی بہن بھائیوں کی شادی کی نیت سے کچھ پیسے جمع کیے تھے جو 34 لاکھ ہیں۔ اب والد صاحب کی وفات ہوچکی ہے تو ان پیسوں پر وراثت کا اصول کس طرح چلے گا ۔

1۔تو آپ بتادیجیے کہ والدہ اور ہر بہن ، بھائی کے حصے میں کتنے آئیں گے
2۔نیز والدہ چاہتی ہیں کہ ابھی بہن بھائیوں کو علم نہ ہو تو اس پر زکوٰۃ کا کیا حساب کتاب بنے گا کیونکہ سب بہن بھائی بالغ تو ہیں مگر 3 چھوٹی بہنوں کا ذریعہ معاش کوئی نہیں ۔ باقی بہن بھائی الحمدللہ جاب وغیرہ کر رہے ہیں۔

تنقیح : والد صاحب ( مرحوم ) کے ماں باپ حیات ہیں یا نہیں؟
جواب : دونوں وفات پا چکے ہیں۔

والسلام
الجواب باسم ملہم الصواب
1-مذکورہ صورت میں مرحوم نے انتقال کے وقت اپنی ملكیت میں جو كچھ منقولہ غیرمنقولہ مال و جائیداد، دكان مكان، نقدی ،سونا، چاندی غرض ہر قسم كا چھوٹا بڑا جو بھی سازوسامان چھوڑا ہے، وہ سب مرحوم كا تركہ ہے۔
1⃣ اس میں سے سب سے پہلے مرحوم كے كفن دفن كا متوسط خرچہ نكالا جائے، اگر كسی نے یہ خرچہ بطور احسان ادا كردیا ہے تو پھر تركے سے نكالنے كی ضرورت نہیں۔
2⃣ اُس كے بعد دیكھیں اگر مرحوم كے ذمے كسی كا كوئی قرض واجب الادا ہوتو اُس كو ادا كیا جائےاور اگر مرحوم نے بیوی كا حق مہر ادا نہیں كیا تھا اور بیوی نےبرضا و رغبت معاف بھی نہیں كیا تو وہ بھی قرض كى طرح واجب الادا ہے، اُسے بھی ادا كیا جائے۔
3⃣ اُس كے بعد دیكھیں اگر مرحوم نے كسی غیر وارث كے حق میں كوئی جائز وصیت كی ہو توبقایا تركے كے ایک تہائی حصے كی حد تک اُس پر عمل كیا جائے۔
4⃣ اُس كے بعد جو تركہ بچے اُس كے 64 برابر حصے کیے جائیں گے۔

🔵 جس میں سے :
🔹بیوہ کو : 8
🔹بیٹےکو : 14
🔹فی بیٹی کو : 7
حصہ ملے گا۔

🔵 رقم کے لحاظ سے:
🔹بیوہ کو 425,000 روپے
🔹بیٹے کو 743,750 روپے
🔹فی بیٹی کو 371875 روپے
دیے جائیں گے۔

والد کے ترکہ میں تمام اولادوں کا حق ہوتا ہے، شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ، کماتے ہوں یا نہیں۔ والد صاحب نے بیٹے بیٹیوں کی شادی کی نیت سے رقم جمع کی تھی تو اگر شادی شدہ بہن اپنا حصہ کم کر دے غیر شادی شدہ بہن بھائی کے حق میں، تو شرعا اس کی بھی اجازت ہے۔

2-میراث کا مال ورثاء کی ملکیت ہے لہذا اس کی تقسیم جلد کرنی چاہیے۔ مزید یہ کہ میراث کا مال فورا ملکیت میں آ جاتا ہے، زکوة ادا کرنے کے لیے قبضہ ہونا شرط نہیں۔ حساب سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ مال میراث نصاب کی حد کو پہنچ رہا ہے لہذا ہر ایک عاقل وبالغ وارث پر اس کے حصے کے بقدر زکوۃ واجب ہو گی۔ پھر جو وارث پہلے سے صاحب نصاب ہے وہ زکوة کی تاریخ میں اس مال کی بھی زکوة نکالیں گے اور جو پہلے سے صاحب نصاب نہیں وہ انتقال پرسال گزرنے پر اس مال کی زکوة ادا کریں گے۔

=====================
حوالہ جات

1۔” يوصيكم الله في اولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين “۔ (سورة النساء،11)

2۔للزوجات فحالتان الربع للواحدة فصاعدةً عند عدم الولد و ولد الابن و ان سفل و الثمن مع الولد او ولد الابن و ان سفل۔ (سراجى، ص 9)

فقط
و اللہ خیر الوارثین
قمری تاریخ: 7 جمادی الثانی 1444ھ
عیسوی تاریخ: 31 دسمبر 2022ء

اپنا تبصرہ بھیجیں