حضرت  یحییٰ   علیہ السلام

تحریر:اسماء اہلیہ فاروق

 بشارت ہوئی کہ بہت جلد یحیٰ  نامی لڑکا  پیدا ہوگا  جو کلمۃ اللہ یعنی عیسیٰ علیہ السلام کی تصدیق کرے گا  ۔ اس طرح  زکریاؑ کے ہاں چاند جیسا بیٹا  ہوا ۔ آپ ؑ ان  کی پیغمبرانہ  دعاؤں  کا حاصل تھے  ان کا نام اللہ  کا مقررکردہ  تھا جو اس سے قبل کسی کا  نہ تھا ۔

سورۃ مریم  

يٰزَكَرِيَّآ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِۨ اسْمُهٗ يَحْيٰى ۙ لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا

( آواز آئی کہ) اے زکریا ! ہم تمہیں ایک ایسے لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحی ہوگا۔ اس سے پہلے ہم نے اس کے نام کا کوئی اور شخص پیدا نہیں کیا۔

اللہ تعالیٰ نے نو عمری میں ہی  حکمت ودانائی  عطا فرمائی۔ تفاسیر  میں  ہے کہ بچوں  نے یحییٰ  سے کہا آؤ کھیلیں  ، انہوں نے کہا کہ ہم کھیل کود کے لیے پیدا نہیں  ہوئے ۔ اس وقت ان کی عمر صرف پانچ سال تھی  اللہ تعالیٰ ا ن کے اوصاف اسی طرح بیان کرتا ہے ۔

وَّحَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَزَكٰوةً ۭ وَكَانَ تَقِيًّا 13؀

اور خاص اپنے پاس سے نرم دلی اور پاکیزگی بھی۔ اور وہ بڑے پرہیزگار تھے۔

وَّبَرّاً بِوَالِدَيْهِ وَلَمْ يَكُنْ جَبَّارًا عَصِيًّا ١4؁

اور اپنے والدین کے خدمت گزار ! نہ وہ سرکش تھے، نہ نافرمان۔

وَسَلٰمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوْتُ وَيَوْمَ يُـبْعَثُ حَيًّا 15

اور (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) سلام ہے ان پر اس دن بھی جس روز وہ پیدا ہوئے، اس دن بھی جس روز انہیں موت آئے گی، اور اس دن بھی جس روز انہیں زندہ کر کے دوبارہ اٹھایا جائے گا۔ ( سورہ مریم  12 تا 15 )

حالات زندگی  :۔

مورخین لکھتے ہیں   کہ یحییٰ  کی پیدائش کے صرف 6 ماہ بعد  عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی  یعنی زکریا ؑ کی دعا  کے چھ ماہ بعد مریم ؑ کی طرف بھی اللہ نے وحی بھیجی  تاکہ اللہ تعالیٰ  انہیں عیسیٰ ؑ جیسا لخت  جگر  عطا کرے  گویا یحییٰ  عیسیٰ ؑ سے  چھ ماہ بڑے تھے ۔ یحییٰ ؑ بڑے   ہوئے تو اپنےوالد زکریاؑ  کے ساتھ بنی اسرائیل  کو اللہ کی طرف دعوت دنے  لگے ۔ آپ ؑ اپنے والد کی طرح خدا کے برگزیدہ  نبی تھے ۔ اللہ نے انہیں  بچپن سے ہی  علم وحکمت  سے معمور کیا ۔ان کی زندگی  کا سب سے بڑا کام یہ تھا کہ وہ عیسیٰ ؑ کی آمد کی بشارت  دیتے اور ان کی آمد سے  قبل رشد وہدایت کے لیے  زمین ہموار کرتے  

 فَنَادَتْهُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ وَھُوَ قَاۗىِٕمٌ يُّصَلِّيْ فِي الْمِحْرَابِ ۙ اَنَّ اللّٰهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيٰى مُصَدِّقًۢـا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَسَيِّدًا وَّحَصُوْرًا وَّنَبِيًّا مِّنَ الصّٰلِحِيْنَ   39؀

چنانچہ ( ایک دن) جب زکریا عبادت گاہ میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے، فرشتوں نے انہیں آواز دی کہ : اللہ آپ کو یحی کی ( پیدائش) کی خوشخبری دیتا ہے جو اس شان سے پیدا ہوں گے کہ اللہ کے ایک کلمے کی تصدیق کریں گے، (١٣) لوگوں کے پیشوا ہوں گے، اپنے آپ کو نفسانی خواہشات سے مکمل طور پر روکے ہوئے ہوں گے، (١٤) اور نبی ہوں گے اور ان شمار راست بازوں میں ہوگا۔ ( سورۃ آل عمران )

واقعہ شہادت  : اسوقت ایک ظالم  بادشاہ  حکمران تھا  اس نےاپنی  بیوی  کو طلاق دے دی تھی  اور پھر  چاہتا تھا کہ اسے  دوبارہ یہودی بنالے ۔ یحییٰؑ سے فتویٰ طلب کیا  ۔کیونکہ ان کی نبوت کا اسی وقت چرچا ہوچکاتھا  اور وہ شریعت کے مطابق فیصلے کیاکرتے تھے ۔ انہوں نے  فرمایا ” کہ اب  یہ تجھ پر حرام ہے “ملکہ کو یہ بات سخت ناگوار گزری اور یحٰیؑ کے قتل کے  در پے ہوگئی  اور بادشاہ کو مجبور کر کے  قتل کی اجازت حاصل کرلی ، بادشاہ نے ان کی طرف سپاہی روانہ کرلیے  یحیٰؑ محراب میں نماز ادا کررہے تھے سپاہیوں نے انہیں شہید کردیا ۔ اس طرح بادشاہ نے دوبارہ بیوی سے شادی کرلی ۔ا س کے بعد انہوں نے آپ کے ولاد زکریاؑ کو بھی شہید کردیا اور یوں  اس دور کے  دو نبی قتل کردئیے گئے ۔ عیسیٰ ؑ باقی رہ گئے  آپ ؑ یحیٰ ؑ کی  زندگی ہی میں نبی قرار  پاچکے تھے  اس وقت آپ کی عمر  30 سال سے کچھ اوپر تھی ۔

ادھر  بادشاہ  اورا س  کی بیوی  پر اللہ کا سخت عذاب نازل ہوا ۔

حدیث مبارکہ  :،امام  بخاریؒ  نے صحیح  بخاری  میں حدیث  اسراء  کے بعد سیدنا یحییٰ کے ذکر  میں یہ روایت لکھی  ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :

جب میں دوسرے  آسمان  پر پہنچا  تو دیکھا  کہ یحییٰ اور عیسیٰ ؑ موجود تھے  اور یہ دونوں  خالہ زاد بھائی  ہیں جبرئیل  ؑ نے کہا  یہ یحییٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ ہیں انہیں سلام کیجئے  میں نے انہیں سلام کیا۔دونوں نے سلام کا جواب دیا۔ دونوں نے کہا  آپ  کا آنا مبارک ہو یہ ہمارے نیک بھائی  اور نیک نبی ہیں ۔”

 زکریاؑ کے تذکرے  میں آچکا ہے  کہ یحییٰ ؑ کی والدہ  اور مریم ؑکی والدہ دونوں  حقیقی  بہنیں  تھیں اس لیے حدیث معراج  میں  نبی کریم ﷺکا یہ فرمانا  کہ یحییٰ   ؑا ور عیسیٰ ؑ خالہ زاد ہیں اس رشتے  کی طرف اشارہ  ہے ۔

دنیا میں اس سے زیادہ  بدبخت  کوئی نہ ہوگا جو ایسی مقدس ہستی کو قتل کرے جو نہ کسی کو ستائے  اور نہ کسی کی مال ودولت پر نظر رکھے  بلکہ اس کے برعکس بغیر کسی اجرت  کے اپنی  زندگی قوم  کی اصلاح اور خیر خواہی  کے لیے وقف  کردے چنانچہ  نبی کریم ﷺ نے اسی بناء پر  سیدنا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ  کے اس سوال  پر کہ قیامت  کے دن سب سے  زیادہ  عذاب  کا مستحق کون ہوگا ؟ یہ فرمایا تھا :

” وہ شخص جو کسی نبی کو یا ایسے شخص کو قتل  کرے جو بھلائی  کا حکم  کرتا ہو اور برائی سے  باز  رکھتا ہو”

 اقوام عالم  میں صرف  یہودی  ہی ایک ایسی  قوم ہے  جس نے ایسے  پاکیزہ  لوگوں کو بے تحاشا قتل کیا ۔

دعوت تبلیغ :۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :”اللہ تعالیٰ  نے یحییٰ بن زکریا  کو پانچ باتوں  کا خصوصیت کے ساتھ  حکم فرمایا   کہ وہ خود  بھی  ان پر عمل  کریں اور  بنی اسرائیل  کو بھی تلقین  کریں  ، چنانچہ  انہوں نے  بنی اسرائیل کو بیت المقدس میں جمع  کیا اور فرمایا ۔

  • پہلا حکم یہ ہے کہ اللہ  کے سوا کسی کی پرستش نہ کرو اور اس کے ساتھ  کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔
  • خشوع وخضوع سے نماز ادا کرو۔
  • روزہ رکھو ۔
  • اپنے مال سے صدقہ نکالو۔
  • دن رات میں  کثرت سے اللہ کا ذکر کرتے  رہو ۔

نصیحت

 انسان کو اللہ  کی طرف سے ناامید نہیں ہونا چاہیے  ، مایوسی  کو  پاس نہ آنے دیں کبھی ایسا ہوتا ہے  کہ انسان  پورے خلوص  اوردل جمعی کےساتھ  دعائیں کرتا ہے  مگر مقصد حاصل  نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب  یہ نہیں کہ اللہ دعائیں  نہیں سن رہا یا قبول نہیں کررہا۔ا س قسم کی مایوسی  اور خیالات  کو کفر قرار  دیاگیا ہے ۔

سیدنا  ذکریا ؑ زندگی بھر  نبوت  کے وارث کے لیے  بے چین  رہے لیکن  اللہ تعالیٰ  سے یہی حسن  ظرف رکھا  کہ اے پروردگار میں آپ سے  مانگ  کر کبھی  بےمراد نہیں  رہا ۔

اللہ تعالیٰ  اپنے  بندوں کو آزماتا ہے نعمت ورحمت  کے حصول میں طویل صبر آزما انتظار کی صعوبتیں  بھی اٹھانی  پرتی ہیں۔اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم  سے جب یہ  نعمت حاصل ہوتی ہے  تو ہمارا  معاشرہ  مجموعی طور پر خوشی ومسرت کا اظہار کرتا ہے ۔ اگر اولاد  کی خوشی  میسر آجائے تو اتنے  بے  خود ہوجاتے ہیں  کہ  حدود شرع  کی پامالی  کا کوئی  احساس ہی نہیں رکھتے  اور بے تحاشا فضول خرچی  کی جاتی ہے ۔ اور ہر سال  اس  کی پیدائش کے دن یہ  عمل دہرایا جاتا ہے ۔ یعنی اس  نعمت  کے حصول کے لیے تو دل وجان  سے اللہ کے حضور حاضر تھے  مگر اب جب کہ  وہ نعمت حاصل  ہوگئی تو شریعت   کو پس پشت ڈال  کر خلاف ورزی  پر اتر آئے ہیں ۔ا ولاد کی تربیت کو ملحوظ  خاص  نہیں رکھاجاتا  ۔ والدین کے لیے  اولاد کی تربیت  تعلیمات  نبویﷺ میں وضاحت  کے ساتھ  موجود ہے ۔ ضرورت  اس امر کی ہے کہ ولادین  اولاد کی ، رسول اللہ  ﷺکے فرامین  کے مطابق تربیت  کرتے ہوئے  مثالی  معاشرہ  قائم کرنے  میں اپنا کردار  ادا کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں