حدودوقصاص ( سورۃ البقرۃ )

1۔قتل ِعمد کی سزا قصاص ہے۔ { يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ} [البقرة: 178]
2۔آزاد آزاد کو قتل کرے یا غلام آزاد کو قتل کرےیا آزاد غلام کو قتل کرے،عورت عورت کو قتل کرے یا مرد عورت کو قتل کرےیاعورت مرد کو قتل کرے ،کافر ذمی کو قتل کرے یا ذمی کافر مسلمان کو قتل کرے یا کئی لوگ مل کر ایک شخص کو ،ان سب صورتوں میں قصاص جاری ہوگا۔(ایضا)
3۔دو صورتوں میں قصاص ساقط ہو جاتا ہے:
1-مقتول کے ورثاء میں سے کوئی ایک بھی قاتل کو معاف کردے۔
2-مقتول کے ورثاء قاتل سے کسی قدرمال پر صلح کرلیں،اس صورت میں بھی قصاص معاف ہو کر مال واجب ہو جاتا ہے۔۔(ایضا) 4۔قصاص لینے کا حق اگرچہ مقتول کے ورثاءکوہے، لیکن باجماع امت ورثاء کے لیے خود یہ حق وصول کرنا جائز نہیں،بلکہ ضروری ہے کہ حقِ قصاص لینے کے لیے اسلامی حکومت کی طرف رجوع کریں۔
5۔ایسا کرنا ہر گز جائز نہیں کہ قاتل سے صلح کرلی جا ئے ،اس سے مال لے لیاجائےاور دوسری طرف اس پر وار کرکے اس کو قتل کر دیا جائے۔(ایضا)
6۔حدودوقصاص کا حکم بظاہر کتنا ہی وحشیانہ معلوم ہو،لیکن اگر یہ سزا جاری ہونے لگے تو معاشرے میں امن قائم ہو کر جرم کا خاتمہ ہو جائے گا۔مجرم کو جرم سے سزا کے خوف سے ہی روکا جاسکتا ہے۔{ وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ} [البقرة: 179]
7۔ایک شخص دوسرے کی کوئی چیز جان بوجھ کر چھین لے،یا چوری کر لے،یا غصب کرلےتووہ چیز واپس کرنا لازم ہے،اگر وہ ہلاک ہو جائےتو دوسرے شخص کے لیے اس کا عوض لینا جائز ہے۔(ایضا)
8۔اگر ایک انسان دوسرے انسان کے کسی عضو کو تلف کر دے تواسکا بھی یہ ہی حکم ہے کہ جہاں پر مماثلت ممکن ہو تو وہاں قصاص ہے اور جہاں مثل ممکن نہیں وہا ں دیت دی جائے۔(ایضا)
9۔بدلہ لیناجائزہےلیکن اگر ایک شخص دوسرے کو گالی دے تو اس کا بدلہ گالی دینا نہیں، بلکہ عدالت میں جاکر اس پر سزا جاری کروانا اس کا بدلہ ہے۔{فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ} [البقرة: 194]
حلال و حرام
جس چیز میں مفاسد زیادہ فائدے کم ہو ،اس سے دور ہنا چاہیے ۔{ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِمَا} [البقرة: 219]
یہ شریعت کا بہت بڑا اصول ہےاس سے بہت سارے مسائل اخذ ہو سکتے ہیں ۔ہر گناہ میں کچھ کچھ فائدے ہوتے ہیں ،لیکن مفاسد اور خرابیاں زیادہ ہوتی ہیں اس لیے وہ کام حرام ہے۔
1-۔جوا کھیلنا۔2۔شراب کم پئےیا زیادہ دونوں صورتیں حرام ہیں ۔3۔اپنا مال ،اولاد یابیوی کو داؤ پر لگانے کی ہر صورت حرام ہے۔
متفرقات
1۔حکمرانِ وقت ناجائز فیصلہ کرلے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں۔{ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ} [البقرة: 229]
2۔عیدین،رمضان،حج،نمازیں،بلوغت اور تمام شرعی عبادات میں چاند کی تاریخ معتبر ہے۔{يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ} [البقرة: 189]اسی لیے چاند دیکھنے کا اہتمام کرنا اور چاند کی تاریخ کی حفاظت رکھنا،یہ امت مسلمہ پرفرض ِ کفایہ ہے۔اس سے غفلت باعث مؤاخذہ ہے۔
3۔ اس پارے کے شروع میں امت محمدیہ کی چند خصوصیات، اعتدال پرستی اور محشر میں گواہی کے مقام کا بھی ذکر فرمایا گیاہے۔اسی سے یہ قانون اخذ کیا گیا ہے کہ امت کا اجماع مآخذ شریعت میں سے ہے۔ {وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا } [البقرة: 143]
5۔اللہ ہمیشہ سے اہل حق کو آزماتے رہے ہیں،اللہ اپنے نیک بندوں کو اتنا آزماتے ہیں کہ وہ سوال کر بیٹھتے ہیں کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ لیکن سوال کا منشاء گستاخی نہیں ہوتا بلکہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ نے مدد کا وعدہ تو کیا ہے، لیکن مدد کب اور کس جگہ آئے گی،اس کی تعیین نہیں فرمائی۔ حالت اضطراب میں ان الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ جلد از جلد مدد بھیجے،حالت اضطراب میں ایسی دعا کرنا توکل اور ایمان کے خلاف نہیں ۔{ أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ} [البقرة: 214]
6۔سخت آزمائشوں کی حالت میں مؤمن کی زبان سے بے ساختہ ان الفاظ کا نکل جاناجبکہ الفاظ صریح گستاخی پر مشتمل نہ ہو تو ایما ن کے خلاف نہیں۔
7۔کسی مشکل اور مصیبت کے وقت اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھنا چاہیے۔
8۔اہل علم پر علمِ دین کا اظہار اور اشاعت واجب ہے ۔{ إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِنْ بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ} [البقرة: 159]البتہ جہاں پر کسی دینی مصلحت کی وجہ سے یا بہت بڑے فتنے اور فساد کا دروازہ بند کرنے کے لیے علم کی بات چھپائی جائے تو یہ گناہ نہیں بلکہ باعث ثواب ہے۔(بیان القرآن،تھانوی)
9۔جس شخص کا حالت ِکفر میں انتقال ہو جائے اس کے لیے رحمت کی دعا کرنا جائز نہیں۔{ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ} [البقرة: 161]
10۔ہر حکم کی مصلحت سمجھ میں آنا انسان کی استطاعت اور طاقت میں نہیں۔{وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ} [البقرة: 216]

اپنا تبصرہ بھیجیں