جانوروں و کیڑے مکوڑوں کی موت اور ان سے حساب وکتاب ہونے کا حکم

سوال :یہ جانور کیڑے مکوڑے بلیاں وغیرہ مرتی ہیں ان کی روح بھی عزرائیل فرشتہ قبض کرتا ہےکیا ان کے لیے بھی جنت دوزخ ہے،جانوروں کا اور کیڑے مکوڑے کا کہ کیا ان کو روز قیامت زندہ کیا جائے گا اور ان سے حساب لیا جائے گا کیا؟
الجواب باسم‌‌ ملھم الصواب
جی ہاں ہر جاندار کی روح حتی کی مچھر کی بھی اللہ پاک کے حکم سے ملک الموت ہی قبض کرتا ہے ۔ رہا ان کا حساب و کتاب تو جانور شرعی قانون کے مکلف نہیں ہیں ، مگر اللہ پاک اپنی شان عدل کا ظہور فرمانے کے لئے یہ انتظام فرمائیں گے کہ اگر ایک جانور نے بھی دوسرے پر ظلم کیا ہوگا تو اس کا بھی بدل دیا جاویگا-

جیسا کہ ترمذی شریف کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ” اللہ کے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( قیامت کے دن ) حقداروں کو ان کا پورا پورا حق دیا جائے گا، یہاں تک کہ سینگ والی بکری سے بغیر سینگ والی بکری کا بدلہ لیا جائے گا” – رہا سوال جنت و دوزخ کا تو حساب برابر کرنے کے بعد جانوروں کو فنا کر دیا جائےگا اور وہ جنت یا دوزخ میں نہیں جائیں گے-

حوالہ جات:
1۔ وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُم ۚ مَّا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِن شَيْءٍ ۚ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ
(سورة الانعام 38)
ترجمه:اور زمین میں جتنے جانور چلتے ہیں ، اور جتنے پرندے اپنے پروں سے اڑتے ہیں ، وہ سب مخلوقات کی تم جیسی ہی اصناف ہیں ۔ ہم نے کتاب ( یعنی لوح محفوظ ) میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔ پھر ان سب کو جمع کر کے ان کے پروردگار کی طرف لے جایا جائے گا-
(ترجمہ مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم العالیہ)

تفسیر :جتنے قسم کے جانور زمین پر (خواہ خشکی میں یا پانی میں) چلنے والے ہیں اور جتنی قسم کے پرند جانور ہیں کہ اپنے دونوں بازوؤں سے اڑتے ہیں ان میں کوئی قسم ایسی نہیں جو کہ (قیامت کے دن زندہ ہوکر اٹھنے میں ) تمہاری طرح کے گروہ نا ہوں اور گو یہ سب اپنی کثرت کی وجہ سے عرفا بے انتہا ہوں لیکن ہمارے حساب میں سب منضبط ہیں۔۔۔۔۔۔
یہ سب کو معلوم ہے کہ جانور کسی شریعت اور احکام کے مکلف نہیں ان کے مکلف صرف انسان ہے اور ظاہر ہے کہ غیر مکلف سے جزا اور سزا کا معاملہ نہیں ہو سکتا اس لئے علما نے فرمایا ہے کہ محشر میں جانوروں کا انتقام ان کے مکلف ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ رب العالمین کی غایت عدل و انصاف کی وجہ سے ہے کہ ایک جاندار کسی جاندار پر ظلم کرے تو اسکا بدلا دلوایا جائے گا باقی انکے کسی اور عمل پر جزا و سزا نہ ہوگی اس سے معلوم ہوا کہ خلق اللہ کے باہمی حقوق و مظالم کا معاملہ اتنا سنگین ہے کہ غیر مکلف جانورں کو بھی اس سے آزاد نہیں کیا گیا مگر افسوس ہے کہ ہمارے بہت سے دیندار اور عبادت گزار آدمی بھی اس میں غفلت برتتے ہیں۔

(معارف القرآن: 3/317)

2 : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوقُ إِلَى أَهْلِهَا حَتَّى يُقَادَ لِلشَّاةِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاةِ الْقَرْنَاءِ۔

(الترمذي: 2420)

ترجمه:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” ( قیامت کے دن ) حقداروں کو ان کا پورا پورا حق دیا جائے گا، یہاں تک کہ سینگ والی بکری سے بغیر سینگ والی بکری کا بدلہ لیا جائے گا“۔
3 : الذي دلت عليه الأحاديث أن ملك الموت يقبض ارواح جميع الحيوانات من بني آدم وغيرهم من ذلك قوله مخاطباً لنبينا صلى الله عليه وسلم: “والله يا محمد ! لو أني أردت أقبض روح بعوضة ما قدرت على ذلك حتى يكون الله هو الآمر بقبضها”. قال القرطبي : وفي هذا الخبر ما يدل على أن ملك الموت هو الموكل بقبض كل ذي روح، وأن تصرفه كله بأمر الله عز وجل وبخلقه واختراعه. ومن ذلك ما في خبر الإسراء عن ابن عباس رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال عن نفسه: “فقلت: يا ملك الموت! كيف تقدر على قبض أرواح جميع من في الأرض برها وبحرها ؟… ” الحديث. وذكر أبو نعيم عن ثابت البناني قال: “الليل والنهار أربع وعشرون ساعة ليس منها ساعة تأتي على ذي روح إلا وملك الموت قائم عليها فإن أمر بقبضها قبضها وإلا ذهب”. قال القرطبي أيضاً: وهذا عام في كل ذي روح ومن ثم لما سئل مالك رضي الله عنه عن البراغيث , أن ملك الموت هل يقبض أرواحهما أطرق مليا، ثم قال: ألها نفس ؟ قيل: نعم ! قال: ملك الموت يقبض أرواحها ( الله يتوفى في الانفس حين موتها)

(الفتاوى الحديثية لابن حجر الهيتمي (ص: 8)

4 سوال: اگر ایک سینگ والی بکری نے بے سینگ والی بکری کو مارا ہوگا تو قیامت میں اللہ تعالیٰ اس کو سینگ دیکر بدلہ دلوائیں گے مقررین و واعظین اسے بیان کرتے ہیں تو کیا یہ مخلوق بھی حساب کی مکلف ہوگی ، اور عذاب و ثواب کی مستحق ہوگی؟
جواب : یہ صحیح ہے ترمذی شریف میں بھی ہے اس بدلہ کے متعلق حاشیہ میں لکھا ہے قالوا هذا قصاص مقابلة لا قصاص تكليف يوخذ من الاطفال والمجانين والحيوانات كلها كذا في الطيبى واللمعات۔
(فتاوی محمودیہ 3/397)
واللہ اعلم بالصواب
8 رجب 1444
31 جنوری 2023

اپنا تبصرہ بھیجیں