کیا میت والے گھر تین دن تک آگ جلانا منع ہے ؟

سوال :اگر کسی کا انتقال ہوجائے تو 3 دن تک میت کے گھر میں کچھ نہیں پکتا کہتے ہیں کہ 3 دن آگ نہیں جلانی چاہیے اسکی کیا حیثیت ہے کچھ لوگوں کے نزدیک آگ جلانا حرام ہے؟

الجواب باسم ملھم الصواب
اسلامی تعلیمات کے مطابق اہل میت کے پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے لیے مستحب ہے کہ وہ اہل میت کے لیے ایک دن اور رات کے کھانے کا انتظام کریں، کیونکہ عموماً اہل میت غم اور دکھ کی وجہ سے اپنے لیے کھانا تیار نہیں کر پاتے۔
البتہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان دنوں میں میت کے گھر کھانا پکانا جائز نہیں ؛ تاہم اگر پڑوسیوں یا رشتہ داروں کی طرف سے کوئی اہتمام نہ ہو یا میت کے گھر والے خود کوئی چیز پکانا چاہیں تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں۔
=========
حوالہ جات
1 ۔ ”اصنَعوا لآلِ جعفرٍ طعامًا، فإنَّهُ قد أتاهُم أمرٌ شغلَهُم۔“
(صحيح أبي داود:3132)
ترجمہ : جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تيار کرو؛ کیوں کہ انہیں وہ چیز پہنچی ہے، جس نے انہیں مشغول کر دیا ہے۔

2 ۔ ”عَنْ عَائِشَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّهَا كَانَتْ إِذَا مَاتَ المَيِّتُ مِنْ أَهْلِهَا، فَاجْتَمَعَ لِذَلِكَ النِّسَاءُ، ثُمَّ تَفَرَّقْنَ إِلَّا أَهْلَهَا وَ خَاصَّتَهَا، أَمَرَتْ بِبُرْمَةٍ مِنْ تَلْبِينَةٍ فَطُبِخَتْ، ثُمَّ صُنِعَ ثَرِيدٌ فَصُبَّتِ التَّلْبِينَةُ عَلَيْهَا، ثُمَّ قَالَتْ: كُلْنَ مِنْهَا، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: التَّلْبِينَةُ مُجِمَّةٌ لِفُؤَادِ المَرِيضِ، تَذْهَبُ بِبَعْضِ الحُزْنِ۔“
(صحيح البخاري:5417)۔
ترجمہ :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ جب کسی گھر میں کسی کی وفات ہو جاتی اور اس کی وجہ سے عورتیں جمع ہوتیں اور پھر وہ چلی جاتیں ، صرف گھروالے اورخاص خاص عورتیں رہ جاتیں تو آپ ہانڈی میں “تلبینہ ” پکانے کا حکم دیتیں ، وہ پکایا جاتا، پھر ثرید بنایا جاتا اور تلبینہ اس پر ڈالا جاتا ، پھر ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتیں کہ اسے کھاؤ؛ کیوں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ فرماتے تھے: تلبینہ مریض کے دل کو تسکین دیتا ہے اور اس کا غم دور کرتا ہے“ ۔

3 ۔ ” قوله: (وباتخاذ طعام لهم) : قال في الفتح: ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم، لقوله – صلى الله عليه وسلم – «اصنعوا لآل جعفر طعاما فقد جاءهم ما يشغلهم حسنه الترمذي وصححه الحاكم ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون “۔
(ردالمحتار علی الدرالمختار : 240 /2، ط: دار الفکر )۔

4 ۔ ”اہل میت کو میت کی تجہیزوتکفین اور غم وحزن کی وجہ سے پکانے کی فراغت نہیں ہوتی، تو ایک دو وقت کا کھانا اہل قرابت ان کے ہاں بھیج دیں۔۔۔یہ خیال کہ تین روز تک اہل میت کے گھر کوئی چیز نہ کھائی جائے اغلاط العوام میں سے ہے “۔
(فتاوی محمودیہ 278 /9)۔

5 ۔” سوال : ایک شخص کے گھر موت ہوجائےاور وہ اپنے گھر کھانا پکوا کر خود کھاتا ہے، یا کوئی مہمان آئے ہیں تو ان کی خاطر مدارت کرتا ہے تو کیا یہ خلاف سنت ہے؟
جواب: ان میں سے کوئی کام خلاف سنت نہیں“۔
(خیر الفتاوی : 208 /2)۔

واللہ تعالی اعلم بالصواب۔
30 جمادی الثانی 1445ھ
12 جنوری 2024ء۔

اپنا تبصرہ بھیجیں