کیا مردے کو واش روم ہیں نہلانا جائز نہیں؟

السلام علیکم ورحمۃ اللہ!
سوال: کیا مردے کو واشروم ہیں نہلانا جائز نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
الجواب باسم ملھم الصواب
اگر واش روم کی اچھی طرح صفائی کر دی جائے ، تو وہاں پہ نہلانا ناجائز نہیں ،البتہ بہتر یہ ہے کہ کسی اور جگہ نہلایا جائے ۔
_______________

حوالہ جات :
1 : ” قوله : ويكره” في محل التوضؤ” لقول صلى الله عليه وسلم: “لا يبولن أحدكم في مستحمه ثم يغتسل فيه أو يتوضأ فإن عامة الوسواس منه” قال : ابن ملك لان ذالك الموضع يصير نجساً فيقع في قلبه وسوسة بأنه هل أصابه منه رشاش أم لا اه‍؟ حتى لو كان بحيث لا يعود منه رشاش أو كان فيه منفذ بحيث لا يثبت فيه شيء من البول لم يكره البول فيه؛ إذ لا يجره إلى الوسوسة حينئذ؛ لأمنه من عود الراشش إليه في الأول؛ ولطهر أرضه في الثاني بأدنى ماء طهور يمر عليها، كذا في شرح المشكاة
(حاشية الطحطاوي على مراقى الفلاح شرح نور الايضاح : صفحه 54)

2 : ( لتنجسه بالموت قيل : نجاسة خبث ، وقيل حدث ): و قد روي في حديث أبي هريرة : سبحان الله إن المؤمن لا ينجس حيا ولا ميتا۔۔۔إلخ ،
وقد أخرج الحاكم عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلّم: لا تنجسوا موتاكم فإن المسلم لا ينجس حيا لا ميتا، وقال: صحيح على شرط البخاري ومسلم ، فيترجح القول بأنه حدث إلخ ، وفيه قبيله: فإنما يطهر بالغسل كرامة للمسلم٠
(الدر المختار و رد المحتار: كتاب الصلاة ، باب صلاة الجنازة مطلب في القراءة عند الميت : 3/84)

3 : میت کے غسل کی کیفیت یہ ہے کہ استنجا کرانے کے بعد اس کو کرائی جاوے اور اسکے تمام بدن پر پانی بیر کے پتوں کا پکا ہوا ڈالا جاوے اور اس کا سر اور داڑھی ختمی سے دھوئی جاوے اور بائیں کروٹ پر لٹا کر داہنے کروٹ کی طرف پانی بہایا جاوے پھر داہنی طرف لٹا کر بائیں کروٹ دھوئی جاوے پھر اسکو کسی سہارے سے بیٹھا کر اسکے پیٹ جو آہستہ سے ملا جاوے اور جو کچھ نجاست نکلے اسکو دھویا جاوے پھر اسکو لٹا کر تمام بدن پر پانی بہا دیا جاوے
(فتاوی دارالعلوم دیوبند :5 /292)

4: اگر نہلانے کی کوئی جگہ الگ ہے کہ پانی کہیں الگ بہ جائے تو خیر۔ نہیں تو تخت کے نیچے گڑھا کھدوا لو کہ سارا پانی اسی میں جمع رہے ۔اگر گڑھا نہ کھدوایا اور پانی سارے گھر میں پھیلا تب بھی گناہ نہیں ۔غرض فقط یہ کہ آنے جانے میں کسی کو تکلیف نہ ہو اور کوئی پھسل کر گر نہ پڑے۔
(بہشتی زیور دوسرا حصہ نہلانے کا بیان ، صفحہ :107)
واللہ اعلم بالصواب

15 جمادی الاولی 1445
30 نومبر 2023

اپنا تبصرہ بھیجیں