ماں کا پہلے بچے کو دوسرے بچے کے ساتھ دودھ پلانا

سوال: اگر پہلا بچہ ابھی دو سال کا نہ ہو کہ دوسرے بچے کی ولادت ہوجائے،اس صورت میں دوسرے بچے کی پیدائش کے بعد ماں کاجو دودھ اترتا ہے ،کیا وہ دوسرے بچے کے ساتھ پہلے کو بھی پلا سکتی ہے،جبکہ وہ دوسرے کی ضرورت سے زائد ہے؟
الجواب باسم ملھم الصواب
جی ہاں! مدت رضاعت کے اندر اندر پہلے بچے کو بھی دودھ پلایا جاسکتا ہے۔
===================
حوالہ جات
1۔قرآنِ کریم میں ہے:
﴿ وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ۖ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ ۚ وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَا تُضَارَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُودٌ لَّهُ بِوَلَدِهِ ۚ وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَٰلِكَ فَإِنْ أَرَادَا فِصَالًا عَن تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا ۗ وَإِنْ أَرَدتُّمْ أَن تَسْتَرْضِعُوا أَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِذَا سَلَّمْتُم مَّا آتَيْتُم بِالْمَعْرُوفِ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ﴾ [ البقرة : 233]

ترجمہ: اور مائیں اپنے بچوں کو دوسال کامل دودھ پلایا کریں، یہ (مدت) اس کے لیے ہے جو کوئی شیر خوار گی کی تکمیل کرنا چاہے، اور جس کا بچہ ہے (یعنی باپ) اس کے ذمے ہے ان (ماؤ ں) کا کھانا اور کپڑا قاعدے کے موافق، کسی شخص کو حکم نہیں دیا جاتا مگر اس کی برداشت کے موافق، کسی ماں کو تکلیف نہ پہنچانا چاہیے اس کے بچے کی وجہ سے، اور نہ کسی باپ کو تکلیف دینی چاہیے اس کے بچے کی وجہ سے۔ اور مثل طریق مذکور کے اس کے ذمے ہے جو وارث ہو ۔ پھر اگر دونوں دودھ چھڑانا چاہیں اپنی رضامندی اور مشورہ سے تو دونوں پر کسی قسم کا گناہ نہیں، اور اگر تم لوگ اپنے بچوں کو (کسی اور انّا کا) دودھ پلوانا چاہو تب بھی تم پر کوئی گناہ نہیں، جب کہ ان کے حوالہ کردو جو کچھ ان کو دینا طے کیا ہے قاعدہ کے موافق ۔ اور حق تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور یقین رکھو کہ حق تعالیٰ تمھارے کیے ہوئے کاموں کو خوب دیکھ رہے ہیں ۔

2۔”باب الرضاع: (هو) لغةً بفتح وكسر: مص الثدي. وشرعاً: (مص من ثدي آدمية) ولو بكراً أو ميتةً أو آيسةً، وألحق بالمص الوجور والسعوط (في وقت مخصوص) هو (حولان ونصف عنده وحولان) فقط (عندهما، وهو الأصح) فتح، وبه يفتى كما في تصحيح القدوري عن العون، لكن في الجوهرة أنه في الحولين ونصف، ولو بعد الفطام محرم وعليه الفتوى. واستدلوا لقول الإمام بقوله تعالى: {وحمله وفصاله ثلاثون شهراً} [الأحقاف: 15] أي مدة كل منهما ثلاثون غير أن النقص في الأول قام بقول عائشة: لايبقى الولد أكثر من سنتين ومثله لايعرف إلا سماعاً، والآية مؤولة لتوزيعهم الأجل على الأقل والأكثر فلم تكن دلالتها قطعيةً، على أن الواجب على المقلد العمل بقول المجتهد وإن لم يظهر دليله كما أفاده في رسم المفتى، لكن في آخر الحاوي: فإن خالفا قيل: يخير المفتي، والأصح أن العبرة لقوة الدليل.
(قوله: لكن إلخ) استدراك على قوله: وبه يفتى. وحاصله أنهما قولان، أفتى بكل منهما ط … (قوله: والأصح أن العبرة لقوة الدليل) قال في البحر: ولايخفى قوة دليلهما، فإن قوله تعالى: {والوالدات يرضعن} [البقرة: 233] الآية يدل على أنه لا رضاع بعد التمام. وأما قوله تعالى: {فإن أرادا فصالاً عن تراض منهما} [البقرة: 233] فإن ما هو قبل الحولين بدليل تقييده بالتراضي والتشاور، وبعدهما لايحتاج إليهما. وأما استدلال صاحب الهداية للإمام وقوله تعالى: {وحمله وفصاله ثلاثون شهراً} [الأحقاف: 15] بناء على أن المدة لكل منهما كما مر، فقد رجع إلى الحق في باب ثبوت النسب من أن الثلاثين لهما للحمل ستة أشهر والعامان للفصال. اهـ.“
(الدر المختار مع رد المحتار:386/4)
واللّٰہ اعلم بالصواب
یکم شعبان المعظم 1444ھ
22فروری 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں