میت والے گھر کھانا کھانے کا حکم

سوال:جب اپنی قریبی فوتگی ھو جائے مثلا خالہ ماموں چچا وغیرہ یا ان کے گھر تو مجبورا وھاں دور ھیں تو 3 دن وھاں ٹہرنا پڑتا تو ظاھر ھے کھانا وغیرہ کھانا مجبوری ھوتی ھے لیکن اگر گھر قریب ھو تو بھی رات تک ٹھیرنا پڑتا تو کیا وھاں ان 3 دنوں میں کھانا وغیرہ کھا سکتے ھیں جبکہ کھانے کا انتظام خاندان والے کرتے ھیں اور چائے وغیرہ تو عموما اسی گھر میں بنتی ھے ،تو کیا وھاں چائے بننا اور کھانے پینے کی گنجائش ھے؟

الجواب باسم ملہم بالصواب
اگر رشتہ دار دور سے آئے ہوں اور کھانا بھی میت کے پیسوں سے نہ بنایا ہوبلکہ کسی نے اپنی خوشی سے کیا ہوتو اس صورت میں کھانے کی گنجائش ہے،
البتہ نزدیک سے آنے والے افراد کو اپنے اپنے گھر واپس چلے جانا چاہیے، ان کے لیے میت کے گھر کھانا کھانے کے لیے رکنا مناسب نہیں ہے؛ کیونکہ دعوت کا کھانا خوشی کے موقع پر ہوتا ہے نہ کہ غم کے موقع پر، یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے بغیر کسی ضرورت کے میت کے گھر کھانے کی دعوت کو مکروہ لکھا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
1)ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من اهل الميت لانه شرع في السرور لا في الشرور ، وهي بدعة مستقبحة ۔روى الامام احمد وابن ماجه باسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال : كنا نعد الاجتماع الى اهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة۔
ويستحب لجيران اهل الميت والاقرباء الاباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم لقوله صلى الله عليه وسلم { اصنعوا لآل جعفر طعاما فقد جاءهم ما يشغلهم } حسنه الترمذي وصححه الحاكم ولانه بر ومعروف ، ويلح عليهم في الاكل لان الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون ،(فتح القدير 3 / 432)

2) قال في شرح السيد ولا بأس بالجلوس لها إلى ثلاثة أيام من غير ارتكاب محظور من فرش البسط والأطعمة من أهل الميت(حاشية الطحطاوي ويكره الجلوس على باب الدار 1 / 409)

3)ولا بأس بأن يتخذ لأهل الميت طعام ، كذا في التبيين ، ولا يباح اتخاذ الضيافة عند ثلاثة أيام ، كذا في التتارخانية(الفتاوى الهندية 4 / 493)

4)يحل للذين يطول مقامهم عنده وللذي يجيء من مكان بعيد يستوي فيه الأغنياء والفقراء ولا يجوز للذي لا يطول مسافته ولا مقامه.(الفتاوى الهندية: 4/ 88)

واللہ اعلم بالصواب
18دسمبر2022
24جمادی الاول1444

اپنا تبصرہ بھیجیں