نالائق طالب علم کو نقل کروا کے پاس کرنا

سوال : میں ایک گورنمنٹ کالج کی ٹیچر ہوں، ہمیں پرنسپل کی طرف سے کچھ طالبات کے نام دیے گئے کہ ان کو کسی طرح سے پاس کرانا ہے خواہ نقل کروا کے انہیں پیپر کرایا جائے یا بغیر پیپر چیک کیے انہیں نمبر دیے جائیں، کیا یہ ایسا کرنا دوسرے سٹوڈنٹس کی حق تلفی نہیں؟؟ اور ایسا کرنا ہم ٹیچرز کے لیے جائز ہے؟؟؟

الجواب باسم ملھم الصواب
امتحان ہال میں نقل کروانا یا کسی طالبعلم کو بغیر پیپر چیک کیے پاس کرنا
خیانت اور بددیانتی ہے جو کہ شرعاً ناجائز ہے؛ نیز اس میں دیگر طلباء کے ساتھ نا انصافی اور خیانت بھی ہے اس لیے استاذ کو اس کام سے بچنا ضروری ہے اور کالج انتظامیہ کو بھی اپنے فعل پہ توبہ واستغفار لازم ہے ۔

=============
حوالہ جات
1 ۔ اِنَّ اللّٰہَ یَاْ مُرُکُمْ اَنْ تُوَدُّوا الْاَمَانَاتِ اِلٰی اَھْلِہَا” ۔(سورۃ النسا: آیت: 58)۔
ترجمہ : بے شک اللہ تعالی حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں اس کے اہل کے سپرد کرو۔

2 ۔ ”اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْخَائِنِیْنَ”۔ (سورۃ الانفال: آیت: 58)۔
ترجمہ : بے شک اللہ تعالی خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا“ ۔

3 ۔ ”عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہﷺ ’’آیۃ المنافق ثلاث‘‘ زاد مسلم وان صام وصلی وزعم انہ مسلم‘‘ ثم اتفقا’’ واذا حدث کذب واذا وعد أخلف واذا اؤتمن خان۔۔۔
فالکذب الإخبار علی خلاف الواقع وحق الأمانۃ ان تؤدی الی اہلہا فالخیانۃ مخالفۃ۔ ( مرقاة المفاتیح: 224/1) ۔

4 ۔ ”ممتحن ( امتحان لینے والا) محکمہ کی طرف سے امانت دار ہے، اور اس بات کا پابند بھی کہ وہ لائق طالب علم کو کامیاب کرے۔ لہذا اگر اس نے نااہل طالب علم کو کامیاب کیا تو امانت میں خیانت، اور بددیانتی کا ارتکاب کیا جس کا اسے گناہ ہوگا ،اس پہ توبہ واستغفار لازم ہے” ۔
(احسن الفتاوی: کتاب الحظر والاباحہ، 185/8)۔
واللہ اعلم بالصواب۔

20 ذوالحج 1444ھ
9 جولائی 2023ء۔

اپنا تبصرہ بھیجیں