رکعات تراویح میں اختلاف ہوجانے پر حکم

 سوال: امام صاحب تراویح پڑ ھا رہے اور  تین رکعت پڑھادیں معلوم نا ہو سکا   کہ رکعت دو ہوئیں یا تین سلام کے بعد جب مقتدیوں سے پوچھا  تو کہا کہ تین ہوئی ہیں  دوسری رکعت کا قعدہ نہیں کیا تھا  اب مسئلہ یہ ہے ٹوٹل رکعت  میں اختلاف ہو گیا بعض کہتے ہیں کہ تین  ہوئی ہیں اور بعض دو کہتے ہیں، اب کیا کرنا چاہیے؟

الجواب حامدا ومصلیا

واضح  رہے کہ تراویح میں ہر  دو رکعت پر قعدہ کرنا فرض ہے لہذا  امام نے جب  دوسری رکعت پر قعدہ نہیں کیا اور تیسری رکعت پر  قعدہ کر کے سلام پھیرا ہے تو تراویح   فاسد ہوگئی  صبح صادق سے پہلے ان دو رکعتوں   کا اعادہ ضروری ہے    اور  ان رکعتوں میں کی گئی تلاوت کا اعادہ بھی  لازم ہوگا   باقی  رکعات تراویح میں اختلاف واقع ہو جائے    تو  اس کی تین صورتیں ہیں :

1۔تمام مقتدیوں اور امام کو شک ہواور یقین اور ظن غالب کسی کو بھی نہ ہو  تو مزید دو رکعت جماعت کے بغیر انفرادی طور پر پڑھ لی جائیں۔

 2۔تمام مقتدیوں کو شک ہوا لیکن امام کو یقین ہے  تو امام اپنے یقین پر عمل کرے۔

 3۔ مقتدیوں میں اختلاف ہو بعض کو دو ہونے کا ظن غالب ہو اور بعض کو تین ہونے کا   تو جس طرف امام کا رجحان ہو اس پر عمل کرے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 32)

(قوله أو ترك قعود أول) لأن كون كل شفع صلاة على حدة يقتضي افتراض القعدة عقيبه فيفسد بتركها كما هو قول محمد وهو القياس، لكن عندهما لما قام إلى الثالثة قبل القعدة فقد جعل الصلاة واحدة شبيهة بالفرض وصارت القعدة الأخيرة هي الفرض وهو الاستحسان وعليه فلو تطوع بثلاث بقعدة واحدة كان ينبغي الجواز اعتبارا بصلاة المغرب، لكن الأصح عدمه لأنه قد فسد ما اتصلت به القعدة وهو الركعة الأخيرة. لأن التنفل بالركعة الواحدة غير مشروع فيفسد ما قبلها

الفتاوى الهندية (1/ 113)

ولو صلى التطوع ثلاث ركعات ولم يقعد على رأس الركعتين الأصح أنه تفسد صلاته

الجوهرة النيرة على مختصر القدوري (1/ 98)

وإذا فسد الشفع وقد قرأ فيه لا يعتد بما قرأه فيه ويعيد القراءة ليحصل الختم في الصلاة الجائزة

الحلبی الکبیر۴۰۶

“(واذا اشکوا) ای الامام والقوم (فی انهم هل (صلوا تسع تسلیمات) ثمانی عشر رکعة (او عشر تسلیمات ؟ ففیه اختلاف:والصحیح انهم یصلون بتسلیمة ) اخری(فرادی) للاحتیاط فی الموضعین اکمال التراویح بیقین والاحتراز عن التنفل الزائدۃ علیها بالجماعة هذا اذا اتفق الکل علی الشک۔۔۔فان الختلفوا وکان الامام مع بعضهم رجح اذا ادعی کل فریق الیقین”

فتاوی محمودیہ 7/288

“اگر تمام نمازیوں اور امام کو شک ہوا کہ ۱۸/تراویح ہوئی ہیں یا بیس پوری ہوگئیں تو دو رکعت بلا جماعت اور پڑھ لی جائیں۔۔۔اگر تمام مقتدیوں کو تو شک ہوا لیکن امام کو شک نہیں ہوا بلکہ کسی ایک بات کا یقین ہے تو وہ اپنے یقین پر عمل کرے ۔۔۔اگر بعض کہتے ہیں کہ بیس پوری ہوگئیں اور بعض کہتے ہیں کہ نہیں بلکہ اٹھارہ ہوئی ہیں تو جس طرف امام کا رجحان ہو اس پر عمل کرے“

واللہ اعلم بالصواب

حنظلہ عمیر بن عمیر رشید

نور محمد ریسرچ سینٹر

دھوراجی کراچی

۱۴/۱۰/۱۴۴۱ھ

2020/6/6ء

اپنا تبصرہ بھیجیں