سفرمیں قصرکیوں پڑھیں؟

فتویٰ نمبر:1029

السلام علیکم ۔

میری ایک رشتہ دار ہیں ان کا کہنا ہے کہ سفر قصر کیوں پڑھیں جب سہولت سے مکمل نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ ان کا نظریہ یہ ہے کہ انسان اپنی سیر و تفریح کے چکر میں عبادات کو کم کیوں کرے۔ اور یہ کہ قصر نماز کسی آیت یا صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ 

ام احمد اسلام آباد

الجواب باسم ملہم الصواب

اصل جواب سے پہلے ایک بات عرض کرنی تھی کہ آج کل لوگوں کے ذہن میں ایک غلط بات یا تصور یہ ڈالا جا رہا ہے کہ دین کے ہر حکم کا قرآن یا کم از کم صحیح حدیث سے ثابت ہونا ضروری ہے۔اس سے کم دلائل پر وہ راضی ہی نہیں ہوتےحالانکہ یہ بجائے خود انتہائی گمراہ کن خیال ہے ۔دین کے بہت سارے احکام مثلا نماز کا طریقہ،رکعات کی تعداد زکوۃ ادا کرنے کا طریقہ یہ تمام صرف احادیث سے ہی ثابت ہیں۔اسی طرح بہت سارے احکامات ایسے ہیں جو صحیح کے علاوہ دیگر درجوں کی احادیث سے ثابت ہیں اور امت آج تک ان کو قبول کرتی چلی آئی ہے۔ان مسائل کو اخذ کرنے والے وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی پوری پوری زندگیاں علم کی نشرو اشاعت میں گزار دیں۔لہذا ان کے فہم دین پر بھروسہ کرنا ہی عقل مندی ہے۔

اس تمہید کے بعد اصل سوال کا جواب پیش خدمت ہے !! سفر میں نماز کو قصر کرنا یہ درحقیقت اللہ کی طرف سے اس چہیتی امت پر ایک تبرع و احسان ہے۔پہلے زمانے کے اسفار بہت پر خطر ہوتے تھے اور اسی طرح پر مشقت بھی۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے سفر کو بجائے خود “مشقت” قرار دے کراس ضعیف امت پر قصر کرنا لازم کر دیا۔ہمیں تو اس رب کریم کا احسان مند ہونا چاہیے جس نے ہمارے دین میں وہ پر مشقت احکام نہیں رکھے جو پچھلی امتوں پر ان کی نا شکری کی وجہ سے لازم کیے گئے تھے۔یہی نہیں بلکہ دو رکعت پر وہی ثواب عنایت فرما دیا جو گھر میں پوری نماز پڑھنے پر ملتا۔لہذا اگر کوئی اس کے باوجود سفر میں پوری نماز پڑھے تو یہ ایسا ہی ہے جیسے فجر کی نماز میں دو کےبجائے چار فرض پڑھے جائیں۔ہر صاحب عقل انسان اس کی قباحت اور گناہ کو سمجھتا ہے۔قصر نماز عبادت کو کم کرنا نہیں،بلکہ اللہ کے احسان کو قبول کرنا ہے۔

وعن يعلى بن أمية قال قلت لعمر بن الخطاب انما قال الله ان تقصروا من الصلوة إن خفتم أن يفتنكم الذين كفروا فقد أمن الناس.قال عمر عجبت مما عجبت منه فسألت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: صدقة تصدق الله بها عليكم فاقبلوا صدقته. رواه المسلم

( المشكوة:١٣٠٨)

” حضرت یعلی ابن امیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ اللہ جل شانہ کا ارشاد یہ ہے کہ” کم نماز پڑھو( یعنی قصر کرو) اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے”

تو اب جبکہ لوگ امن میں ہیں( اور کافروں کے ستانے کا خوف جاتا رہا تو قصر کی کیا ضرورت ہے؟)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:” جس پر تمہیں تعجب ہے اسی پر مجھے بھی تعجب ہوا تھا چنانچہ میں نے سرتاج دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“( نماز میں قصر) اللہ کا ایک احسان ہے جو تم پر کیا گیا ہے لہذا تم اس احسان کو قبول کرو.”

اس حدیث سے یہ بات بخوبی ظاہر ہوتی ہے کہ نماز میں قصر کا حکم سفر میں خوف یا مشقت کے ساتھ خاص نہیں،بلکہ یہ آسانی درحقیقت اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان تمام بندوں پر جو حالت سفر میں ہوتے ہیں،ایک احسان ہے۔

فقہی پہلو اس حدیث کا یہ ہے کہ اس میں ” فاقبلوا صدقتہ” یہ امر کا صیغہ ہے جو اس حکم کے وجوب کی طرف اشارہ کرتا ہے،یعنی نماز میں قصر کرنا واجب ہے اور پوری نماز پڑھنا گناہ اور ناپسندیدہ ہے۔

آئیے! اب دیکھتے ہیں کہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل سفر میں کیا تھا؟!

١. عن أنس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى الظهر بالمدينة أربعا و صلى العصر بذى الحليفة ركعتين. متفق عليه

( مشكوة:١٣٠٩)

ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ظہر کی نماز چار رکعت پڑھی اور ذی الحلیفہ میں عصر کی نماز دو رکعت پڑھی۔

٢. و عن حارثة بن وهب الخزاعي قال: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم و نحن اكثر ما كنا قط و آمنه بمنى ركعتين.متفق عليه

( مشكوة:١٣٠٧)

ترجمہ:اور حضرت حارثہ ابن وہب خزاعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سرتاج دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں منی میں دو رکعتیں پڑھائیں اور اس موقع پر ہم اتنی تعداد میں تھے کہ اس سے پہلے کبھی نہ تھے اور امن کی حالت میں تھے۔

یعنی امن کی حالت ہونے کے باوجود اور تعداد میں زیادہ ہونے کے باوجود،جبکہ کسی قسم کا خوف نہ تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصر نماز ادا فرمائی۔

خلاصہ کلام یہ ہوا کہ نماز میں قصر کرنا اللہ کی طرف سے اس ضعیف امت پر ایک ایسا احسان ہے،جس پر عمل کرنا لازم ہے اور اس احسان کو قبول نہ کرنا ناشکری اور گناہ کبیرہ ہے۔نیز اس کواپنے فہم سے عبادت میں کمی سمجھ کر اس پر عمل نہ کرنا ایک ایسی غلط فہمی ہے جس کا ازالہ ضروری ہے۔

اللہ ہم سب کو اپنے احکام کا مطیع و فرماں بردار بنا دے۔

فقط۔واللہ المؤفق

بنت ابو الخیر سیفی عفی عنہا

دار الافتاء صفہ اسلامک ریسرچ سنٹر،کراچی

٢٤ شعبان١٤٣٩ ھ

١١مئی ٢٠١٨ ء

اپنا تبصرہ بھیجیں