شادی شدہ زانی کے لئے رجم کرنے میں حکمت ۔

سوال:السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ
شادی شدہ اگر زنا کرے تو رجم کرنے کا حکم ہے یہ اس لئے ہے کہ آگے اور لوگ ایسے کام نہ کریں اور معاشرے میں برائیاں نہ پھیلیں۔
مجھے یہ حکم بڑا سخت لگ رہا ہے میں اپنے آپ کو سمجھانے کے لئے کوئی وجہ نکال رہی ہوں تاکہ مجھے یہ اطمینان ہو جاۓ کہ یہ حکم بالکل ٹھیک ہے ۔دماغ میں یہ بات بھی آتی ہے کہ اللہ کا حکم ہے جیسے بھی ہو ہمیں ماننا ہے اسی میں ہماری خیر ہے ۔

الجواب باسم ملہم الصواب
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ !
چند نکات کی صورت میں جواب ملاحظہ ہو:
1۔اسلام ، اللہ کی ماننے کا نام ہے ۔اللہ تعالی نے جو پابندیاں عائد کی ہیں بہر صورت وہ واجب العمل ہیں خواہ ان کی عقلی حکمت انسان کو سمجھ آۓ یا نہ آۓ ۔
2۔ہر معاشرے میں کچھ مریض ایسے ہوتے ہیں جن پر تربیت و نصیحت کا کچھ اثر نہیں ہوتا۔ وہ صرف سختی کی زبان جانتے ہیں اور انھیں جرائم سے صرف حدود اور عقوبات کے ذریعے ہی روکا سکتا ہے۔
معاشرے میں ایسے افراد کی مثال ان مریض اعضاء کی سی ہے جن کے علاج کے لیے دوا کی ضرورت پڑتی ہے جب کہ اس کے ٹھیک ہونے کی اُمید ہو، لیکن اگر کوئی عضو گل سڑ جائے تو اسے کاٹ کر جسم سے الگ کیے بغیر چارہ نہیں رہتاتاکہ باقی اعضا محفوظ رہیں۔ اسلامی حدود اور تعزیرات کا مقصد انہی معاشرتی مریضوں کا علاج ہے ۔
3۔اسلام میں اگر زانی پر حد جاری کرنے کا مقصد اس کی جان لینا ہوتا تو اسلام بغیر شرائط کے اس سزا کو نافذ کرتا ،لیکن اسلام کی احتیاط دیکھیے کہ جہاں جرائم پر حدود جاری کرنے کا حکم دیا وہاں اس کے ساتھ کچھ قیود اور شرائط بھی لگائی ہیں۔ جب تک وہ تمام شرائط نہ پائی جائیں گی، اُس وقت تک شرعی حد جاری نہیں ہوتی۔ اور اگرتمام شروط موجود ہوں،لیکن ایک شرط کی کمی ہو تب بھی حد ساقط ہوجاتی ہے۔ اگر اس میں کسی قسم کا معقول شبہ پیدا ہوجائے تب بھی حد ساقط ہوجاتی ہے۔
نیز حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں بھی شادی شدہ زانی /زانیہ کے لیے رجم کی سزا تھی ۔
لہذا واضح رہے کہ یہ اللہ تعالی کے بناۓ قوانین ہیں جنہیں اس کے علم محیط اور حکمت کاملہ نے جرائم کی ٹھیک ٹھیک تشخیص کرنے کے بعد تجویز فرمایا ہے ۔اللہ تعالی کے تمام احکامات میں بن نوع انسان کے لئے مصلحتیں پوشیدہ ہیں ۔ان میں کسی قسم کے شک و شبہ میں پڑنے کی بجاۓ بے چوں چراں انہیں قبول کیا جاۓ۔اللہ تعالی کی بندگی کا تقاضا بھی یہی ہے ۔
_________
حوالہ جات :-
1۔َمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ  یُّقْبَلَ مِنْہُ وَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ۔
(آلِ عمران: 85) 
ترجمہ: ’’اور جو کوئی شخص اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کو چاہے گا وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گااور وہ آخرت میں تباہ کار لوگوں میں سے ہوگا۔
2۔وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَo
(النُّوْر ، 24 : 2)
اور چاہئے کہ ان دونوں کی سزا (کے موقع) پر مسلمانوں کی (ایک اچھی خاصی) جماعت موجود ہو ۔

3۔ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَى شَرِيعَةٍ مِّنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاء الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۔
(الجاثیہ :18)

ترجمہ۔اس کے بعد اے نبی قائم کیا ہے ہم نے تمہیں شریعت پر دینی معاملہ میں۔
سو تم اسی پر چلو اور نا اتباع کرو ان لوگوں کی خواہشات کا جو علم نہیں رکھتے ۔
احادیث مبارکہ :-

1۔فجلس عمر على المنبر، فلما سكت المؤذنون، قام فاثنى على الله بما هو اهله، ثم قال: اما بعد، فإني قائل لكم مقالة قد قدر لي ان اقولها، لا ادري لعلها بين يدي اجلي، فمن عقلها ووعاها فليحدث بها حيث انتهت به راحلته، ومن خشي ان لا يعقلها فلا احل لاحد ان يكذب علي، إن الله بعث محمدا صلى الله عليه وسلم بالحق، وانزل عليه الكتاب، فكان مما انزل الله آية الرجم، فقراناها وعقلناها ووعيناها، رجم رسول الله صلى الله عليه وسلم ورجمنا بعده، فاخشى إن طال بالناس زمان، ان يقول قائل: والله ما نجد آية الرجم في كتاب الله، فيضلوا بترك فريضة انزلها الله، والرجم في كتاب الله حق على من زنى، إذا احصن من الرجال والنساء، إذا قامت البينة، او كان الحبل، او الاعتراف، ثم إنا كنا نقرا فيما نقرا من كتاب الله، ان لا ترغبوا عن آبائكم فإنه كفر بكم، ان ترغبوا عن آبائكم، او إن كفرا بكم ان ترغبوا عن آبائكم، الا ثم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: لا تطروني كما اطري عيسى ابن مریم ۔۔۔۔۔

(صحیح البخاری : رقم الحدیث 6830)

ترجمہ۔عمر رضی اللہ عنہ ممبر پر بیٹھے اور جب مؤذن اذان دے کر خاموش ہوا تو آپ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی ثنا اس کی شان کے مطابق بیان کرنے کے بعد فرمایا: امابعد! آج میں تم سے ایک ایسی بات کہوں گا جس کا کہنا میری تقدیر میں لکھا ہوا تھا، مجھ کو نہیں معلوم کہ شاید میری یہ گفتگو موت کے قریب کی آخری گفتگو ہو۔ پس جو کوئی اسے سمجھے اور محفوظ رکھے اسے چاہیے کہ اس بات کو اس جگہ تک پہنچا دے جہاں تک اس کی سواری اسے لے جا سکتی ہے اور جسے خوف ہو کہ اس نے بات نہیں سمجھی ہے تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ میری طرف غلط بات منسوب کرے۔ بلاشبہ اللہ سبحانہ و تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ  مبعوث کیا اور ان پر کتاب نازل فرمائی اور اللہ تعالی نے جو نازل کیا اس میں رجم کی آیت بھی تھی، جسے ہم نے پڑھا، سمجھا اور یاد کیا،   رسول اللہ  صلی اللہ علیہ  وسلم نے رجم کیا،  اور آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا، مجھے خدشہ ہے کہ کچھ عرصہ  گزرنے کے بعد کوئی کہنے والا یہ نہ کہنے لگے: اللہ کی قسم ہم تو  کتاب اللہ میں رجم کی آیت نہیں پاتے، تو اللہ کا نازل کردہ فریضہ ترک کرنے کی وجہ سےوہ گم راہ ہو جائیں گے، اور شادی شدہ  مرد اور عورت  کو زنا کرنے پر گواہ  ثابت ہو جانے یا حمل ظاہر ہوجانے یا اقرار پر رجم کرنا کتاب  اللہ میں حق ہے ‘‘. 
(صحیح  بخاری، رقم الحدیث:  6830 )
2۔عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ـ رضى اللہ عنهما ـ أَنَّ الْيَهُودَ، جَاءُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى اللہ عليہ وسلم فَذَكَرُوا لَهُ أَنَّ رَجُلاً مِنْهُمْ وَامْرَأَةً زَنَيَا فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى اللہ عليہ وسلم ” مَا تَجِدُونَ فِي التَّوْرَاةِ فِي شَأْنِ الرَّجْمِ “۔ فَقَالُوا نَفْضَحُهُمْ وَيُجْلَدُونَ۔ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلاَمٍ كَذَبْتُمْ، إِنَّ فِيهَا الرَّجْمَ۔ فَأَتَوْا بِالتَّوْرَاةِ فَنَشَرُوهَا، فَوَضَعَ أَحَدُهُمْ يَدَهُ عَلَى آيَةِ الرَّجْمِ، فَقَرَأَ مَا قَبْلَهَا وَمَا بَعْدَهَا۔ فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلاَمٍ ارْفَعْ يَدَكَ۔ فَرَفَعَ يَدَهُ فَإِذَا فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ۔ فَقَالُوا صَدَقَ يَا مُحَمَّدُ، فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ۔ فَأَمَرَ بِهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صلى اللہ عليہ وسلم فَرُجِمَا۔ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ فَرَأَيْتُ الرَّجُلَ يَجْنَأُ عَلَى الْمَرْأَةِ يَقِيهَا الْحِجَارَةَ ۔
(صحیح البخاری ، کتاب المناقب 26، باب یعرفونہ کما یعرفون ابناءھم )
ترجمہ۔ عبداللہ بن عمر نے خبر دی کہ یہود، رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو بتایا کہ ان کے یہاں ایک مرد اور ایک عورت نے زنا کیا ہے۔ آپ نے ان سے فرمایا، رجم کے بارے میں تورات میں کیا حکم ہے؟ وہ بولے یہ کہ ہم انہیں رسوا کریں اور انہیں کوڑے لگائے جائیں۔ اس پر عبداللہ بن سلام نے کہا کہ تم لوگ جھوٹے ہو۔ تورات میں رجم کا حکم موجود ہے۔ تورات لاؤ۔ پھر یہودی تورات لائے اور اسے کھولا۔ لیکن رجم سے متعلق جو آیت تھی اسے ایک یہودی نے اپنے ہاتھ سے چھپا لیا اور اس سے پہلے اور اس کے بعد کی عبارت پڑھنے لگا۔ حضرت عبداللہ بن سلام نے کہا کہ ذرا اپنا ہاتھ تو اٹھاؤ جب اس نے ہاتھ اٹھایا تو وہاں آیت رجم موجود تھی۔ اب وہ سب کہنے لگے کہ اے محمد! عبداللہ بن سلام نے سچ کہا بے شک تورات میں رجم کی آیت موجود ہے۔ چناں چہ رسول اللہ کے حکم سے ان دونوں کو رجم کیا گیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر نے بیان کیا کہ میں نے رجم کے وقت دیکھا، یہودی مرد اس عورت پر جھکا پڑتا تھا، اس کو پتھروں کی مار سے بچانا چاہتا تھا .
________

1۔مرفوع احادیث میں بھی اس ’’سبیل‘‘ کا بیان رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وضاحت کے ساتھ ثابت ہے، اور شادی شدہ، غیر شادی شدہ ہر ایک کے لیے الگ الگ حکم بیان کیا گیا ہے، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ اور قبیلہ ازد کی ایک عورت پر زنا کی حد جاری فرمائی تھی، اور یہ دونوں چونکہ شادی شدہ تھے، اس لیے ان کو سنگسار کر دیا گیا تھا، نیز ایک یہودی کو بھی زنا کی وجہ سے رجم کیا گیا تھا اور اس کے حق میں یہ فیصلہ تورات کے حکم پر کیا گیا تھا‘‘۔
(معارف القرآن :337/2)
___________
کتب فقہ :-
1۔”واذا وجب الحد مکان الزانی محصناً رجمہ بالحجارۃ حتی یموت۔۔۔ وعلی ھذا اجماع الصحابۃ ۔
( ہدایہ مع فتح القدیر ،210/5)

2۔رجمہ بالحجارۃ حتی یموت ( علیہ اجماع الصحابۃ ومن تقدم من علما ء المسلمین ۔
(ھدایہ مع فتح القدیر210/5)

3۔فاذا بین ذلک وظھر زناہ سالہ عن الاحصان ۔۔۔۔فان وصفہ بشرائطہ حکم برجمہ کذا فی التبیین ۔
(فتاوی ھندیہ : 144/2)

واللہ اعلم بالصواب
2ستمبر 2022
4صفر 1444

اپنا تبصرہ بھیجیں