سورۃا لانعام میں ذکر نبی کریم ﷺ کی رسالت کے دلائل

ویسے تو وہ سبھی دلائل جناب نبی کریم ﷺ کی نبوت کے دلائل ہیں جو گزشتہ سطور میں بیان ہوئے۔ لیکن وہ عمومی دلائل تھے چند خصوصی دلائل جو الگ سے آپ ﷺ کی رسالت کی حقانیت اور ثبوت کے طور پر اس سورت میں بیان ہوئے وہ یہ ہیں:
1۔ ایک شخص اپنی تحریر کردہ کتاب میں کبھی اپنے خلاف کوئی بات لکھنا گوارا نہیں کرتا۔ ہمیشہ وہ اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی نفی ہی کرتا ہے، لیکن قرآن کریم کو آپ دیکھیے کہ اس میں بعض اوقات انبیائے کرام بلکہ خود نبی کریم ﷺ کو (بشری تقاضے سے سرزد ہوجانے والی لغزشوں پر) تنبیہ کی جاتی ہے۔ (دیکھیے آیت نمبر ۳۵، ۵۲، ۵۴، ۱۰۷، ۱۰۸ اس کے علاوہ سورہ عبس کی ابتداء اور جنگ بدر کے قیدیوں کے حوالے سے نازل ہونے والی آیات) یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قرآن، اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ کتاب اور نبی کریم ﷺ کی رسالت کا ثبوت ہے۔ اگر معاذ اﷲ! یہ اپنی طرف سے لکھی گئی کتاب ہوتی تو اس میں کبھی خود اپنی ذات کو ہدف تنبیہ نہ بنایا گیا ہوتا۔
2۔ قرآن کریم، نبی کریمﷺکی رسالت کی زندہ جیتی جاگتی دلیل ہے۔ قرآن کریم گزشتہ انبیاء و رسل کے واقعات اور قدیم آسمانی کتابوں کے مضامین کو بالکل درست انداز میں بیان کرتا ہے۔ آسمانی کتابوں میں جو تحریفات کر دی گئیں ان کا پردہ چاک کرتا ہے۔ حالانکہ نبی کریم ﷺنے کبھی لکھا پڑھا نہ کسی سے لکھنے پڑھنے کی تعلیم حاصل کی اور نہ ہی کبھی اس غرض سے اس دور کی تعلیم گاہوں کے اسفار کیے۔ (دیکھے آیت ۹۲، ۱۴۶)
3۔آپ ﷺ کی رسالت کی ایک بڑی دلیل، آپ کے افکار کا تضادات اور بد اعتقادیوں سے پاک ہونا ہے۔ ایک شخص بہت وسیع تعلقات رکھتا ہو تو وہ جتنا بھی بڑا ماہر عالم دین یا فلاسفر ہو لیکن معاشرے کے تصورات و افکار کا اس پر اثر ضرور پڑتا ہے۔ لیکن نبی کریم ﷺکی مقدس شخصیت کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کا یہ خصوصی کرم رہا کہ اس نے آپ کو وسیع تعلقات اور عوام میں گہرے رسوخ کے باوجود ہرلحظہ فکری غلطیوں اور اعتقادی تضادات سے آپ کو محفوظ رکھا۔ اور آپ کو صاف ستھرا، سادگی پسند، آسان اور خالص دین عطا فرمایا۔ وان تطع اکثر من فی الارض الخ (آیت نمبر ۱۱۶)
4۔مدعی کاکام اپنے دعوی پر گواہ پیش کرنا ہوتا ہے۔ اگر وہ گواہ پیش کردے تو مدعا علیہ ان گواہوں پر جرح تو کرسکتا ہے۔ جس کا جواب مدعی کے ذمہ ہوگا لیکن یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان قائم کردہ گواہوں کے علاوہ مزید فلاں فلاں گواہ بھی پیش کیے جائیں! عدالت ایسی فضول فرمائشوں کی سماعت نہیں کرتی۔ اسی طرح نبی کریم نے جب دعوائے نبوت کیا تو اس کے لیے عقلی، الزامی اور معجزات غرض ہر طرح کے دلائل قائم فرمائے۔اغیار ان دلائل پر رد و جرح کرسکتے ہیں (جس کا جواب علمائے اسلام نیابتاً ہر دور میں دیتے ہیں) لیکن من مانے دلائل کی فرمائش نہیں کرسکتے۔ ان کی فرمائشوں پر عمل اس لیے نہیں کیا جاتا کہ اگر ان کی فرمائشوں پر عمل ہو بھی جائے تب بھی ایسے لوگ عموماًایمان لانے والے نہیں ہوتے۔ (آیت : ۱۰۹۔۱۱۱)
( ازگلدستہ قرآن )

اپنا تبصرہ بھیجیں