سورۃ الانعام میں ذکر کردہ توحید کے دلائل

دلائل توحید
1۔اللہ تعالی نے انسان پر ہزارہا نعمتیں کی ہیں، اس کے احسانات ان گنت ہیں، ہر پل وہ انسان کی پرورش کررہا ہے، سو جب نعمتیں، احسانات اللہ کے ہیں تو انسان کو عبادت بھی اسی کی کرنی چاہیے، مدد اسی سے مانگنی چاہیے!یہ کیا بات کہ کھائیں اللہ کا اور عبادت غیراللہ کی!اس دلیل کو آپ توحید کی دلیل ربوبیت کہہ سکتے ہیں۔
2۔ دوسری دلیل، دلیل قدرت ہے۔ آسمانوں، سیاروں، ستاروں اور ان کے علاوہ دوسری ہزارہا مخلوقات کی تخلیق اور ان کا قیام، پہاڑ سے اونٹنی کی پیدائش، بحر وبر، فضا وخلا کے قوانین، کروڑوں انسان اور ان کے بدلتے ہوئے چہرے ، ان کے رنگ ،زبانیں اور قبائل یہ سب اللہ تعالی کی قدرت کا مظہر ہیں،ایسی ذات کی عبادت کی بجائے لوگ بتوں کی ، مخلوقات کی اور بندگان خدا کی عبادت میں لگے رہتے ہیں، یہ کتنی بڑی جہالت کی بات ہے؟ جو ذات اتنی بڑی قدرت کی مالک ہے وہ کیا اپنے بندوں کی فریاد نہیں سن پاتے! ان کی مدد نہیں کرسکتے!(کیوں نہیں، بالکل کرسکتے ہیں)
3۔توحید کی تیسری دلیل خود انسانی فطرت ہے۔معصوم بچے روتے ہوئے اللہ، اللہ کہتے ہوئے روتے ہیں۔انسان سخت مشکلات میں، زلزلوں، طوفانوں میں…. سمندری موجوں کے تلاطم کے وقت جب وہ موت کو اپنے سامنے پاتا ہے، اس وقت ایک اللہ ہی کو پکارتا ہے، سو جب مشکلات میں ایک اللہ کی مدد کے قائل ہوتو عام زندگی میں غیروں کی پرستش کیوں؟
4۔چوتھی دلیل نظم کائنات کی دلیل ہے۔یہ آسمان وزمین صدیوں سے اپنی جگہ قائم ہیں، یہ خود اللہ کے یکتا وتنہا معبود ہونے کی دلیل ہے، کیونکہ بالفرض اگر اللہ کے سوا اور بھی خدا ہوتے تو ان خداؤں میں نظام کائنات پر حکمرانی کے لیے رسہ کشی ہوتی، لڑائیاں ہوتیں، ان کے بھی کئی گروپس ہوتے، زمینی خدا سب مل کر آسمانی خدا کی حکومت سے بغاوت کردیتے۔اور دنیا جانتی ہے کہ جب لڑائیاں ہوتی ہیں تو نظام درہم برہم ہوجایا کرتا ہے ، یہاں بھی ان لڑائیوں کی وجہ سے نظم کائنات درہم برہم ہوجاتا!لیکن نظام کائنات اپنی آب وتاب کے ساتھ قائم ہے۔معلوم ہوا کہ ایک اللہ کے علاوہ اور خداؤں کا سرے سے وجود ہی نہیں۔
5۔انسانی روایات ، قدیم تہذیب وتاریخ اور آسمانی کتابوں سے پتا چلتا ہے کہ ایک آسمانی خدا کا تصور ہر دور، ہر مذہب اور ہر تہذیب میں رہا- لیکن مختلف عوامل اور جہالتوں کی وجہ سے لوگوں نے بعد میں اور چیزوں کو مشکل کشا، حاجت روا سمجھنا شروع کردیا۔آدم اور ان کی اولاد توحید پر چلتے رہے، ان کے بعد کی نسلوں میں شیطان نے شرک پیدا کیا اور وہ ود،سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو خدا بنابیٹھے جس پر نوح علیہ السلام آئے، انھوں نے شرک کا ابطال کیا اور توحید کی دعوت دی، پھر یہ سلسلہ چلتا رہا۔غرض دنیا میں اصل مذہب توحیدپرستی کا تھا لیکن حوادث زمانہ بعد والی نسلوں میں شرک پیدا کرتے رہے، یہ سلسلہ ہر دور میں جاری رہا، شیطان انسان کو صراط مستقیم سے بھٹکاتا رہا۔سو انسان کو اپنی اصل کی طرف لوٹنا چاہیے اور شرک کی جہالتوں سے باز آنا چاہیے!
6۔ جن عظیم شخصیات کو لوگوں نے اپنی طرف سے خدائی اختیارات تفویض کر رکھے ہیں خود ان کی حالت یہ رہی کہ وہ اپنی سب مشکلات اﷲ کے سامنے پیش کر تے تھے اور اﷲ ہی ان آزمائشوں سے ان کو نکالتا تھا تو جب مقدس ہستیاں خود اﷲ کی محتاج ہیں تو وہ دوسروں کی حاجتیں کیسے دور کرسکتے ہیں؟ وان یمسسمک اﷲ بضرفلا کاشف لہ الاھو
7۔ بتان دنیا میں سے کوئی ایسا نہیں جو ذرہ برابر بھی نفع و نقصان کے مالک ہوں بلکہ وہ تو خود محتاج ہیں۔ لوگ اپنے ہی ہاتھوں سے ان کو تراشتے ہیں اور جب چاہیں ان کو توڑ سکتے ہیں۔ کوئی کچھ بھی کردے ان کو کچھ دِکھنے یا سنائی دینے والا نہیں۔ ایسے گونگے بہرے ، محتاج اور فنا ہوجانے والے، خدا کیسے ہوسکتے ہیں؟ اندعوا من دون اﷲ ما ینفعنا ولا یضرنا
8۔جو ہستیاں خود زوال پذیر ہوں۔ کسی بڑی ہستی کے مزدور ہوں۔ وقت مقرر پر آتے ہوں اور وقت مقرر پر ڈوب جاتے ہوں وہ خدا کیسے ہوسکتے ہیں۔ چاند، سورج، ستارے اور سب ہی مقدس ہستیاں وقت مقرر پر آتے ہیں اور پھر چلے جاتے ہیں۔ ہمیشہ کے لیے کوئی بھی چیز دنیا میں نہیں ہے تو پھر یہ سب خدا کیسے ہوسکتے ہیں؟ فلما جن علیہ اللیل راکوکباً الخ
9۔ لوگوں کے دلوں میں بتوں کا خوف بٹھا دیا گیا ہے اس لیے وہ ان سے ڈرتے اور پوجتے ہیں۔ حالانکہ عبادت کے لیے آسمانی سند اور وحی کی دلیل چاہیے۔ اور ظاہر ہے کہ بت پرستی کے دلائل انسانوں کے تراشے ہوئے محض وہم و خیال اور رسم و رواج ہیں۔ وکیف اخاف ما اشرکتم الخ
10۔ دنیا کا کوئی مذہب اﷲ تعالیٰ کے لیے بیوی تجویز نہیں کرتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب شرک پرست کسی مقدس ہستی کے حوالے سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ خدا کے بیٹے یا بیٹیاں ہیں تو اولاد کے لیے بیوی چاہیے تو وہ کس کو معاذ اﷲ! اﷲ تعالیٰ کی بیوی قرار دینے کی جسارت کریں گے؟ معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کی اولاد سرے سے ہے ہی نہیں۔ انی تکون لہ و لدو لم تکن لہ صاحبۃ

اپنا تبصرہ بھیجیں