وعدہ بیع کا حکم

فتویٰ نمبر:467

سوال:کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

میں نے ایک فلیٹ خریدا ہے جس کو اسی شخص کے ہاتھوں زیادہ قیمت پر بیچنا طے ہے،جس کی صورت یہ ہوئی تھی کہ پہلے زبانی معاہدہ ہوا جس میں یہ طے پایا تھا کہ پہلے میں یہ فلیٹ ایک متعین رقم پر خریدوں گا پھر کچھ ماہ بعد اسی کو زیادہ قیمت پر بیچ دوں گا،زبانی معاہدہ کو حتمی شکل نہیں دی گئی تھی اور معاھدہ کرتے وقت الفاظ بھی مستقبل کے استعمال ہوئے تھے کہ اتنے میں خریدوں گا اور واپس اسی کو بیچ دوں گا۔

پھر کچھ عرصہ بعد فائل میں تحریری معاہدہ ہوا جس میں میں نے طے کردہ رقم میں وہ فلیٹ خریدا اور اس کے ایک دو ہفتے بعد دوسرا معاھدہ ہوا جس میں میں نے انھی کو اپنا منافع رکھ کر وہ فلیٹ فروخت کر دیا میں نے قیمت نقدی دی تھی اور وہ قیمت مجھے اگست میں ادا کریں گے۔

یہ دوسرے معاھدہ کی کاپی میرے پاس رکھی ہوئی ہے وہ آپ کو دے رہا ہوں۔

 معاھدہ

بندہ خلیل احمد نےیہ فلیٹ بھائی ندیم صاحب سےکچھ عرصہ قبل خریدا تھا اب اس فلیٹ کو فروخت کر رہا ہے،فائل میں جو قیمت ہے اس کے اعتبار سے اکیس لاکھ روپے میں۔

بندہ ندیم احمد بھائی خلیل سے یہ فلیٹ اکیس لاکھ روپے میں اپنی خوشی سے خرید رہا ہے اور اس کی ادائیگی چودہ اگست ۲۰۱۳دس شوال تک ادا کر دی جائے گی،اور انشاء اللہ تمام معاملات خوش اسلوبی سے ہو جائیں گے۔

تمام چیک ماہ شعبان میں جاری کر دیے جائیں گے جو انشاء اللہ دس شوال ۱۴۳۴ ۲۰۱۳ تک ہوں گے۔

الجواب حامداً ومصلیاً

خلیل احمد اور ندیم احمد کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا وہ خالی وعدہ بیع تھا اس کے بعد جب فلیٹ کی خریداری از سر نوع حتمی شکل میں ہوئی اس وقت خلیل احمد نے مذکورہ فلیٹ ندیم احمد سے نقد میں خریدا،قیمت بھی معلوم تھی اس لئے یہ معاملہ درست ہوا،پھر ایک دو ہفتہ بعد خلیل احمد نے دوبارہ ندیم احمد کو اپنا منافع رکھ کر وہ فلیٹ ادھار میں فروخت کیا،ادھار کی مدت بھی طے ہے اور قیمت میں بھی جہالت نہیں ہے اس لئے یہ معاملہ بھی صحیح ہوا،یہ دونوں معاملے آپس میں مشروط نہیں بلکہ الگ الگ وقتوں میں ہوئے ہیں اس لئے یہ معاملہ صفقتان فی صفقۃ میں داخل نہیں بلکہ جائز ہے۔

حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتھم فرماتے ہیں:اگر بیع شرط سے خالی ہو لیکن بیع سے پہلے وفا کا وعدہ کر لیا ہو تو وہ مفسد عقد نہیں۔(غیر سودی بینکاری

التخريج

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 277):

 (۳)ولو بعده على وجه الميعاد جاز لزم الوفاء به؛ لأن المواعيد قد تكون لازمة لحاجة الناس، وهو الصحيح

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 84):

 وفي جامع الفصولين أيضا: لو ذكرا البيع بلا شرط ثم ذكرا الشرط على وجه العقد جاز البيع ولزم الوفاء بالوعد، إذ المواعيد قد تكون لازمة فيجعل لازما لحاجة الناس تبايعا بلا ذكر شرط الوفاء ثم شرطاه يكون بيع الوفاء؛ إذ الشرط اللاحق يلتحق بأصل العقد عند أبي حنيفة ثم رمز أنه يلتحق عنده لا عندهما، وأن الصحيح أنه لا يشترط لالتحاقه مجلس العقد. اهـ وبه أفتى في الخيرية وقال: فقد صرح علماؤنا بأنهما لو ذكرا البيع بلا شرط ثم ذكرا الشرط على وجه العدة جاز البيع ولزم الوفاء بالوعد

البحر الرائق شرح كنز الدقائق (6 / 8):

وإن ذكرا البيع بلا شرط ثم شرطاه على وجه المواعدة جاز البيع ولزم الوفاء وقد يلزم الوعد لحاجة الناس فرارا من الربا

الفتاوى الهندية (3 / 209):

 وإن ذكرا البيع من غير شرط ثم ذكرا الشرط على وجه المواعدة جاز البيع ويلزم الوفاء بالوعد كذا في فتاوى قاضي خان

مجمع الضمانات (1 / 243):

وإن ذكر البيع من غير شرط ثم ذكرا الشرط على وجه المواعدة جاز البيع ويلزم الوفاء بالوعد؛ لأن المواعيد قد تكون لازمة فيجعل لازما لحاجة الناس انتهى.

اپنا تبصرہ بھیجیں