دس محرم کاروزہ و اہل وعیال کےخرچ میں کشادگی کے فضائل

دور فاروقی میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے باہمی مشورے سے ماہ محر م الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ  طے پایا(جبكہ اس سے پہلے بعض ربیع الأول كو پہلا مہینہ قرار دیتے تھے كہ اس مہینے میں آپ ﷺ نے ہجرت كى)  جس سے اسلامی سال کی ابتدا ء ہوتی ہے ،جیساکہ ابوالفداء اسماعیل بن علی متوفی 732ھ نے ” المختصر فی اخبار البشر : 1 / 123 “میں اس کی تصریح کی ہے ۔

 لہذا مسلمانوں کے لیے نئے سال کا آغاز اس ماہ سے کرنا سنت عمل ہے  اس لیے کہ شریعت میں جہاں حضور ﷺ کے اعمال  امت کے لیے سنت اورمشعل راہ ہیں  ایسے ہی حضرات خلفاء راشدین کی ترمیمات ، واعمال بھی امت کے لیے  سنت عمل اوراسوۃ حسنہ  کی حیثیت رکھتے ہیں جیساکہ رسول خدا ﷺ نے اپنی زندگی میں ہی اس کی تصریح کرتے ہوئے فرمایا:” میری اور میرے خلفاء راشدین کی سنت اتنی مضبوطی سے پکڑو جیسے تم کوئی چیز اپنی ڈاڑھوں سے پکڑتے ہو۔”(سنن أبی داود : 7/16و17)

            جہاں ماہ محرم الحرام سے اسلامی تقویم کے مطابق  نئے سا ل کاآغاز ہوتا ہے جس سے اس کی تاریخی حیثیت اجاگر ہوتی ہے وہاں اس کی حرمت اور حضور پر نور ﷺ کے اس ماہ میں خصوصی اعمال اس کی عظمت کو چار چاند لگادیتے ہیں ۔  ان اعمال میں سے ہم صرف دو کا تذکرہ کرتے ہیں ۔

(1) دس محرم کا روزہ رکھنا (2) دس محرم کے دن اہل وعیال کے خرچ میں کشادگی و وسعت کرنا۔

دس محرم الحرام کا روزہ :

    ماہ رمضان المبارک کے روزے فرض ہونے سے پہلے پہل تک دس محرم الحرام کا روزہ رکھنا جمہور ائمہ کے نزدیک فرض تھا  لیکن ماہ رمضان  کے روزے فرض ہونے سے اس کی فرضیت منسوخ ہوگئی،تو آپ ﷺ نے اس دن روزہ رکھنے اور نہ رکھنے کا اختیار دیا  ، بخاری شریف میں ام المؤمنین حضرت عائشہ  رضی اللہ تعالی عنہا سے منقول ہے:” مسلمان رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے  عاشوراء(دس محرم الحرام ) کار وزہ رکھتے تھے  اس دن بیت اللہ کو غلاف بھی چڑھا یا جاتا تھا ، جب اللہ تعالی نے رمضان کے روزے فرض کیے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا  ” جو شخص اس دن روزہ رکھناچاہے تو رکھ لے اگر چھوڑنا چاہے تو چھوڑ دے”۔ (عمدة القاري شرح صحيح البخاري : 9/233)

تاہم محرم کے مکمل مہینے میں روزے رکھنا  خصوصا دس محرم الحرام کاروزہ رکھنا باتفاق امت مسلمہ فضیلت کاعمل ہے، جوکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا  : “رمضان کے روزوں کے بعد سب سے بہترین روزے اللہ کے مہینے محرم کے روزے ہیں”(صحیح مسلم : 3/169)

            عاشوراء( دس محرم) کے روزے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا :” عاشوراء کے دن کاروزہ رکھنے والے کے حق میں اللہ تعالی سے امید کرتاہوں کہ اس کے ایک سال کے گناہ(صغیرہ)معاف فرمادیں۔”(صحیح مسلم : 3/167)

نیز آپ ﷺ مستحب    روزوں میں دس محرم اور فرض روزوں میں رمضان کے روزوں کابہت شدت سے اہتمام فرمایا کرتے تھے ۔ بخاری شریف میں ہے(2/251)”ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں :” میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ فضیلت والے دنوں کے روزوں  میں عاشوراء کےدن کا روزہ اورماہ رمضان کے روزوں کی طلب و انتظار میں رہتے تھے ۔”

دس محرم الحرام کے  ساتھ نو یا گیارہ محرم الحرام کا روزہ ملانا:

            البتہ صرف دس محرم کے دن کاروزہ رکھنا یہود ونصاری سے مشابہت کی وجہ سے مکروہ ہے  لہذا اس کے ساتھ نو یا گیارہ محرم کاروزہ رکھنا چاہیے  چنانچہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں  :” جب رسول خدا ﷺ نے دس محرم الحرام کے دن روزہ رکھا اورصحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو روزہ رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ کرام نے عرض کی : اے اللہ کے رسول ﷺ  اس دن کی تو یہود ونصاری (روزہ رکھ کر )تعظیم وتکریم کرتے ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا  : ان شا ء اللہ آئندہ سال دس محرم الحرام کے ساتھ نومحرم الحرام کاروزہ بھی رکھیں گے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں  : نیا سال آنے سے پہلے ہی آپ ﷺ اس دار فانی سے رخصت ہوگئے ۔”

دوسری  حدیث میں آپ ﷺنے فرمایا “اگر میں آئندہ سال دنیا میں رہا تو ضرور بالضرور نو محر م الحرام کا روزہ رکھوں گا۔”(صحیح مسلم 3/151)

            جبکہ دس  کے ساتھ  گیارہویں تاریخ کے روزے کو ملانے کا ثبوت ابن عباس رضی اللہ کی درج ذیل روایت سے  ہے :” تم عاشوراء کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو کہ اس سے ایک دن پہلے یا بعد کا روزہ بھی رکھو۔”(مسند أحمد : 4/52)

 اس حدیث کی سند اگرچہ ضعیف ہے (راوی حدیث ابن ابی لیلی  کے حافظہ میں کمزوری کی وجہ سے )لیکن    اس سے استدلال درست ہے  اس لیے کہ محدثین کے یہاں یہ بات مشہور ہے کہ  جب حدیث میں ضعف شدید نہ ہو تو فضائل اعمال میں اس سے استدلال درست ہے۔

عاشوراء کے دن اہل وعیا ل پر وسعت سے خرچ کرنا :

     آپ ﷺ نےیوم عاشوراءکو اہل وعیال پر خرچ میں وسعت کرنے کی ترغیب فرمائی ہے:

“من وسع على عياله يوم عاشوراء لم يزل في سعة سائر سنته”( المعجم الکبیر:10/77)

ترجمہ : جس نے دس محرم الحرام کے دن اپنے گھر والوں کے خرچ میں کشادگی کی(چاہے وہ کشادگی کھانے پینے کی چیزوں میں ہویا مالی طورپر جیب  خرچ میں ) تو ساراسال اس کے رزق میں کشادگی رہے گی۔

اس حدیث کو بعض ائمہ نے  موضوع کہا ہے ، تاہم جمہورائمہ نے اسے قابل عمل قرار دیا ہے اگر کو ئی شخص اس پر عمل کرے گا تو خیر سے ہرگز محروم نہ ہوگا  چنانچہ  علامہ سیوطی ؒ (متوفی  911ھ ) نے اس حدیث کو صحیح اور اکثر نے قائلین وضع کے دلائل کےجوابات کے ساتھ قوی دلائل سے اس حدیث کوحسن قرار دیا ہے ،جن میں علامہ بیہقی (متوفی 458ھ )  ابوالفضل العراقی(متوفی 806ھ) ،  علامہ نورالدین السمہود ی(متوفی 911ھ )  علامہ ابن العراق الکنانی (متوفی 963ھ ) ، ملا علی قاری (متوفی 1014ھ)  اورعلامہ عبد الحی لکھنوی(متوفی 1304ھ ) خاتمۃ المحققین سر فہرست ہیں۔

نیز عملی طورپربھی  اس حدیث کاصحیح ہونا ثابت ہے چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ  اپناتجربہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :” ہم نے اس حدیث کاعملی تجربہ کیا تو ایسے ہی پایا۔” (اللآلي المصنوعة : 2/96) ،سفیان بن عیینہ ؒ م 198ھ کہتے ہیں : “ہم نے ساٹھ سال اس حدیث کا عملی تجربہ کیا تو اسے صحیح پایا۔”.(منهاج السنة : 8/149 )۔

ابن سعید نعمانی

  28/11/1437ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں