بیوی کے ساتھ حالت حیض میں خواہش پوری کرنا

سوال: میرا سوال ہے کہ میرے میاں بیرون ملک مقیم ہیں اور جب کبھی وہ واپس ملک آتے ہیں اور اگر میں حالت حیض میں ہوں تو مجھے ہاتھ سے اپنی شہوت پوری کرنے کا کہتے ہیں۔ وہ دین سے بہت دور ہیں۔ ہمارا اکثر و بیشتر اس بات پر جھگڑا رہتا ہے جس پر وہ کہتے ہیں کہ شوہر کی اطاعت کا حکم اللہ نے دیا ہے اور چونکہ میں تمہیں کہہ رہا ہوں تو تم پر اس کاکوئی گناہ نہیں ۔ مجھے اس کے لیے کیاحکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔
نیز میاں کا کہناہے کہ چھاتی یا ٹانگون کے درمیان سے خواہش پوری کرو یا پرائیوٹ پارٹ کو ہاتھ لگانا کیسا ہے اور وضو اور روزے میں اس کا کیا حکم ہے۔
کوئی ایسی دعا بھی بتا دیجیے جو ان حالات میں پڑھنی چاہیے ۔

الجواب باسم ملہم الصواب

واضح رہے کہ بیوی سے ہاتھ سے شہوت پوری کرانا مکروہ تنزیہی ہے، لیکن اگر بیوی حیض یا نفاس کی حالت میں ہو  یا مرض وغیرہ کی وجہ سے ہم بستری ممکن نہ ہو اور شوہر پر شہوت کا غلبہ ہو تو اس صورت میں مجبورا اس کی گنجائش ہوگی۔البتہ خلاف شرع کاموں میں شوہر کی بات نہیں مانی جائے گی۔
میاں بیوی کا نجاست کی جگہوں کے علاوہ ایک دوسرے کے تمام جسم سے فائدہ اٹھانا شرعاً جائز ہے۔
تاہم حالت وضو میں مذی کے خروج سے وضو ٹوٹ جائے گا۔
آپ اپنے شوہر کے لیے اللہ سے دعا کرتی رہیں اور سورۃ الفرقان کی اس آیت کوپڑھنے کا اہتمام بھی کیجیے۔

وَالَّـذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ اَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا .
(سورۃ فرقان: 74)
اور وہ جو کہتے ہیں کہ ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا دے۔
———————————————
حوالہ جات :

 1. وَيَسْاَلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِيْضِ ۖ قُلْ هُوَ اَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَآءَ فِى الْمَحِيْضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُـوْهُنَّ حَتّـٰى يَطْهُرْنَ ۖ فَاِذَا تَطَهَّرْنَ فَاْتُوْهُنَّ مِنْ حَيْثُ اَمَرَكُمُ اللّـٰهُ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ
 (سورۃالبقرہ : 222)
ترجمہ: اور آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دو وہ نجاست ہے پس حیض میں عورتوں سے علیحدہ رہو، اور ان کے پاس نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائیں، پھر جب وہ پاک ہو جائیں تو ان کے پاس جاؤ جہاں سے اللہ نےتمہیں حکم دیا ہے، بے شک اللہ توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور بہت پاک رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
—————————————–.
1.عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ مَا لَمْ يُؤْمَرْ بِمَعْصِيَةٍ فَإِذَا أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَةَ
(صحیح بخاری: 7144)
ترجمہ:  سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سےبیان کرتے ہیں کہ آپ نےفرمایا: ”ایک مسلمان کے لیے امیر کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا ضروری ہے۔ یہ اطاعت پسندیدہ اور ناپسندیدہ دونوں باتوں میں ہے بشرطیکہ اسے گناہ کا حکم نہ دیا جائے۔اگر اسے گناہ کا حکم دیا جائے تو نہ بات سنی جائے اور نہ اطاعت ہی کی جائے.

2.لَا طَاعَةَ فِي مَعْصِيَةٍ إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ.
(صحیح بخاری: 7257)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت جائز نہیں۔ اطاعت صرف نیک کاموں میں ہوتی ہے۔“
———————————————
1.”بقي هنا شيء وهو أن علة الإثم هل هي كون ذلك استمتاعا بالجزء كما يفيده الحديث وتقييدهم كونه بالكف ويلحق به ما لو أدخل ذكره بين فخذيه مثلا حتى أمنى، أم هي سفح الماء وتهييج الشهوة في غير محلها بغير عذر كما يفيده قوله وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة إلخ؟ لم أر من صرح بشيء من ذلك والظاهر الأخير؛ لأن فعله بيد زوجته ونحوها فيه سفح الماء لكن بالاستمتاع بجزء مباح كما لو أنزل بتفخيذ أو تبطين بخلاف ما إذا كان بكفه ونحوه وعلى هذا فلو أدخل ذكره في حائط أو نحوه حتى أمنى أو استمنى بكفه بحائل يمنع الحرارة يأثم أيضًا”.
(فتاوی شامیہ: ج 2، ص 399)

2.”ويجوز أن يستمني بيد زوجته وخادمته اهـ وسيذكر الشارح في الحدود عن الجوهرة أنه يكره ولعل المراد به كراهة التنزيه فلا ينافي قول المعراج يجوز، تأمل“۔
(فتاوی شامیہ: ج 2.ص 399)

3.”في الجوهرة: الاستمناء حرام، وفيه التعزير. ولو مكن امرأته أو أمته من العبث بذكره فأنزل كره ولا شيء عليه”.و في الرد: “(قوله: ولا شيء عليه) أي من حد وتعزير، وكذا من إثم على ما قلناه”.
(فتاوی شامیہ: ج 4، ص 27)

4۔وقربان ماتحت الازار اي ويمنع الحيض قربان زوجها ما تحت ازارها ۔۔۔وقد علم من عباراتهم انه يجوز الاستمتاع بالسرةوما فوقها، وبالركبة وما تحتها
(البحر الرائق : ج1ص 342،345)

5۔من جامع عمداً في أحد السبيلين فعليه القضاء والكفارة، ولايشترط الإنزال في المحلين، كذا في الهداية. وعلى المرأة مثل ما على الرجل إن كانت مطاوعةً، وإن كانت مكرهةً فعليها القضاء دون الكفارة… إذا أكل متعمداً ما يتغذى به أو يتداوى به يلزمه الكفارة، وهذا إذا كان مما يؤكل للغذاء أو للدواء فأما إذا لم يقصد لهما فلا كفارة وعليه القضاء، كذا في خزانة المفتين … وإذا أصبح غير ناو للصوم ثم نوى قبل الزوال ثم أكل فلا كفارة عليه، كذا في الكشف الكبير.
(فتاوی الھندیہ: ج 1، ص 205)
—————————————
واللہ اعلم بالصواب
21فروری 2023
1شعبان 1444

اپنا تبصرہ بھیجیں