ڈاکٹر کے غلط علاج کا ضمان

سوال: ڈاکٹرز کی غفلت کی وجہ سے انسانی جان چلی جاۓ یا عضو ضائع ہو جاۓ تو کیا ڈاکٹر سے قصاص لیا جا سکتا ہے ؟
 الجواب باسم ملھم الصواب 
اگر کوئی مریض ڈاکٹر کی لاپرواہی اور غفلت سے انتقال کرجائے تو اس صورت میں ڈاکٹر پر قصاص تو نہیں آئے گا تاہم ڈاکٹر اپنے اس عمل کی وجہ سے شدید گنہگار ہوگا ،لہذا اس پہ مریض کے ورثاء سے معافی مانگنا اور توبہ واستغفار کرنا ضروری ہوگا۔
نیز اس پہ ضمان آئے گا اور ضمان کی تفصیل احسن الفتاوی میں یوں ذکر کی گئی ہے :
طبیب کی دو قسمیں ہیں:
۱۔حاذق۔ ۲۔جاہل
طبیب حاذق کا حکم:
اس کے لئے علاج کرنا جائز ہے اور اس سے رفع ضمان کے لئے دو شرائط ہیں:
۱۔ مریض یا اس کے ولی نے علاج کی اجازت دی ہو۔
۲۔ علاج اصول طبیہ کے مطابق ہو۔
اگر ان میں سے کوئی شرط مفقود ہو اور مریض کا نقصان ہوجائے تو ضمان واجب ہے۔
اگر بلا اذن علاج کیا تو پورا ضمان واجب ہے اور اذن سے کیا تو اس میں یہ تفصیل ہے:
۱۔ علاج کا پورا طریقہ اور عمل اصول طبیہ کے خلاف ہو تو:
اس صورت میں اگر مریض ہلاک ہوگیا تو پوری دیت لازم ہوگی اور اگر کوئی عضو تلف ہوگیا تو بحسب تفصیل فقہاء رحمہم اللہ تعالی ضمان واجب ہوگا۔
۲۔ کچھ عمل اصول طبیہ کے مطابق کیا اور کچھ اس کے خلاف تو:
اس صورت میں مریض ہلاک ہوگیا تو نصف دیت واجب ہوگی، اور اگر عضو تلف ہوگیا تو پورا ضمان واجب ہوگا، اور اگر عضو میں نقصان آیا تو موضع معتاد سے تجاوز کی وجہ سے جو نقصان ہوا اسی کی بقدر ضمان آئے گا۔
طبیب جاہل کا حکم:
اس کے لئے علاج کرنا جائز نہیں اور بہرصورت پورا ضمان واجب ہوگا، خواہ اصول طبیہ کے مطابق علاج کرے یا ان کے خلاف، مریض یا اس کے ولی کی اجازت سے علاج کرے یا بلا اجازت۔
تنبیہ: یہ ساری تفصیل اس صورت میں ہے کہ جب علاج میں ڈاکٹر کا ہاتھ استعمال ہوا ہو مثلا آپریشن کیا ہو یا انجکشن لگایا ہو، یا اپنے ہاتھ سے دوائی پلائی ہو۔
لیکن اگر ڈاکٹر نے صرف دوائی تجویز کی اور مریض نے خود کھائی اس صورت میں ضمان لازم نہیں ہوگا،البتہ تعزیری سزا ضرور ہونی چاہیے۔
(احسن الفتاوی:جلد 8،ص 517،518)۔
===================
حوالہ جات:
1 ۔” قال الامام ابوداود۔۔۔۔۔۔قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ایما طبیب تطبب علی قوم لایعرف لہ تطبب قبل ذلک فاعنت فھو ضامن”۔
(سنن ابی داود :کتاب الدیات، 282/2)۔
ترجمہ: ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی قوم میں طبیب بن بیٹھے،حالانکہ اس سے پہلے اس کی طب دانی مشہور نہ ہو اور مریض کا مرض بگڑ جائے تو وہ طبیب اس کا ضامن ہوگا” ۔
2 ۔ ” ولاضمان علی حجام وبزاغ ای فصاد لم یجاوز المعتاد، فان جاوز المعتاد ضمن الزیادة کلھا اذالم یھلک المجنی علیہ،وان ھلک ضمن نصف الدیة لتلفھا بمأذون فیہ وغیر مأذون فیہ فینتصف ” ۔(رد المحتار : 43/5)۔
3 ۔” وقال العلامة ابن عابدین : قولہ وطبیب جاھل بان یسقیھم دواء مھلکا واذا قوی علیھم لایقدر علی ازالة ضررہ “۔( رد المحتار: 93/5)۔
4 ۔” جس شخص نے چند مہینے حکمت کا کام سیکھا،ابھی تجربہ حاصل نہیں، تو ایسے شخص کا طبیب اور معالج بن کر علاج کرنا درست نہیں” ۔
(فتاوی محمودیہ: 318/18)۔

واللہ اعلم بالصواب
13/01/1444
12/08/2022

اپنا تبصرہ بھیجیں