دوران نماز رکعتوں میں شک ہوجائے تو کیا حکم ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سوال:میں نے عشاء کی چار رکعت فرض کی نیت کی دو سجدے کرنے کے بعد مجھے یہ شک ہوا کہ یہ پہلی رکعت ہے یا دوسری تو دو کا خیال کرکے قعدہ کرلیا پھر تیسری اور چوتھی رکعت میں صرف فاتحہ پڑھی اور آخر میں قعدہ کرکے سلام پھیر دیا جبکہ مجھے تیسری رکعت میں یہ خیال رہا کہ ہوسکتا ہے یہ دوسری رکعت ہو پھر بھی نے صرف سورہ فاتحہ پڑھی اور قعدہ میں بھی نہیں بیٹھی اور سجدہ سہو بھی نہیں کیا جبکہ غالب گمان بھی کسی جانب کا نہیں تو کیا یہ نماز درست ہوگئی؟

الجواب باسم ملھم الصواب
واضح رہے کہ اگر کسی کو نماز میں شک ہوگیا کہ پہلی رکعت ہے یا دوسری تو حکم یہ ہے کہ اگر یہ شک اتفاق سے ہوگیا ہے ایسا شبہ پڑھنے کی اس کی عادت نہیں ہے تو پھر سے نماز پڑھے اور اگر شک کرنے کی عادت ہے ، اور اکثر ایسا شبہ پڑجاتا ہے تو دل میں سوچ کر دیکھے کہ دل زیادہ کدھر جاتا ہےجس طرف ظن غالب ہو اس پر عمل کرے اور سجدہ سہو بھی نہ کرے ، اور اگر سوچنے کے بعد بھی دونوں طرف برابر خیال رہے نہ ایک کی طرف زیادہ گمان جاتا ہے نہ دوسری کی طرف تو پھر پہلی ہی سمجھے ،لیکن اس صورت میں ہر رکعت پہ قعدہ بھی کرے اور آخر میں سجدہ سہو بھی کرے،صورت مسئلہ میں چونکہ ظن غالب کسی جانب نہیں تھا ،اس لیے پہلی رکعت قرار دے کر تین رکعات اور پڑھنی چاہیے تھیں اور ہر رکعت کے بعد قعدہ کرکے سجدہ سہو کرنا تھا،جو نہیں کیا گیا،لہذا نماز لوٹانی ہوگی۔‎

حوالہ جات
1۔عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم : ‎«إذا شك أحَدُكم في صلاته، فلم يَدْرِ كم صلى ثلاثا أم أربعا؟ فَلْيَطْرَحِ الشك وَلْيَبْنِ على ما اسْتَيْقَنَ، ثم يسجد سجدتين قبل أن يُسَلِّمَ، فإن كان صلى خمسا شَفَعْنَ له صَلَاته، وإن كان صلى إِتْمَاماً لِأْرْبَعٍ؛ كانتا تَرْغِيمًا للشيطان»‎.
( صحیح مسلم 1/ 1275)
ترجمہ:ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک ہوجائے اور اسے معلوم نہ ہو کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھ لی ہیں؟ تین یا چار ؟ تو وہ شک کو چھوڑ دے اور جتنی رکعتوں پر اسے یقین ہے ان پر بنیاد رکھے پھر سلام سے پہلے دو سجدے کرلے، اگر اس نے پانچ رکعتیں پڑھ لی ہیں تو یہ سجدے اس کی نماز کو جفت ‎(چھ رکعتیں)‎ کردیں گے اور اگر پوری چار رکعات پڑھی ہوں تو یہ سجدے شیطان کی ذلت و رسوائی کا باعث ہوں گے‎۔

2۔(وإن شك في صلاته) أنه (كم صلى إن كان أول ما عرض له) في تلك الصلاة كما قال فخر الإسلام واختاره ابن الفضل، وقال أكثر المشايخ: إن كان أول ما وقع له في عمره، وقال شمس الأئمة السرخسي: إن كان السهو ليس بعادة له، وهو أشبه كما في المحيط (استقبل) ثم الاستقبال لايتصور إلا بالخروج عن الأولى، وذلك بالسلام أو الكلام أو عمل آخر مما ينافي الصلاة لكن السلام قاعدًا أولى، ومجرد النية لم تكف في القطع، (وإلا) أي وإن لم تكن أول ما عرض له بل يعرض كثيرا (تحرى وعمل بغلبة ظنه) دفعا للحرج وسجد للسهو حتى لو ظن أنها أربعة مثلًا فأتم وقعد وضم إليها أخرى وقعد احتياطًا كان مسيئًا كما في المنية (فإن لم يكن له ظن بنى على الأقل) المتيقن (وقعد في كل موضع احتمل أنه موضع القعود) فلو شك مثلًا في ذوات الأربع أنه يصلي ركعة أو ركعتين أو ثلاثًا أو أربعًا أو لم يصل شيئًا فقعد قدر التشهد لاحتمال أنه صلى أربعًا ثم صلى أربع ركعات يقعد في كل ركعة قدر التشهد لأنه يمكن أن يكون آخر صلاته والقعدة الأخيرة فرض فلو شك في الوتر وهو قائم أنها ثانية أو ثالثة يتم تلك الركعة ويقنت فيها ويقعد ثم يقوم ويصلي أخرى ويقنت فيها أيضا.‎
(مجمع الأنهر: كتاب الصلاة، باب سجود السهو، (1/152)

3۔( واذا شک) فی صلاتہ ( من لم یکن ذلک) ائ الشک( عادۃ لہ) وقیل من لم یشک فی صلاۃ قط بعد بلوغہ، وعلیہ اکثر المشائخ، بحر عن الخلاصہ ( کما صلی استانف) بعمل مناف وبالسلام قاعدا اولی لانہ المحلل( وان کثر) شکہ ( عمل بغالب ظنہ ان کان ) لہ ظن للحرج ( والا اخذ بالاقل ) لتیقنہ ( وقعد فی کل موضع توھمہ موضع قعودہ) ولو واجبا لئلا یصیر تارکا فرض القعود او واجبہ۔
( ردالمحتار ،کتاب الصلاۃ/ باب سجودالسھو 2 /561)

فقط
واللہ اعلم بالصواب
30 اکتوبر 2022
4 ربیع الثانی 1444

اپنا تبصرہ بھیجیں