اس ٹیچر کی تنخواہ کا حکم جو دوران امتحان نقل کرواتا ہے

السلام علیکم ورحمة الله وبركاته
سوال: میرے بہنوئی کالج میں ٹیچر ہیں۔ دوران امتحان وہ طلبہ کو نقل کا موقع یا معاونت کردیتے ہیں۔ ایسے میں بہنوئی کی کمائی حلال ہوگی؟ ان کے گھر جانا کھانا پینا حلال ہوگا؟ ان کے گھر سے آئی کوئی چیز قبول کرنا درست ہوگا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب باسم ملهم الصواب: استاد کا طلبہ کو دوران امتحان نقل کروانا یا اس میں مدد کرنا دھوکہ اور ان طلبہ کے ساتھ بے ایمانی ہے جو محنت کرکے اچھے نمبر لاتے ہیں۔ لہذا ان کا اس فعل سے بچنا لازم ہے۔تاہم چونکہ تنخواہ ان کو کالج میں وقت دینے اور پڑھانے کی ملتی ہے لہذا اگر وہ اس میں کوتاہی نہیں کرتے تو وہ حلال ہوگی۔ ان کے گھر جا کر کھانا پینا بھی حلال ہوگا اور ان کے گھر سے آئی ہوئی چیز کا قبول کرنا بھی درست ہوگا۔
حوالہ جات:
قرآن کریم سے :
1۔’’وتعاونوا علی البر والتقویٰ ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان۔
(سورۃ المائدۃ، آیت :2)
ترجمہ:۔
اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی اعانت کیا کرو اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو۔
حدیثِ مباركه سے :
2۔من غشنا فلیس منا ۔
(صحیح مسلم :284)
ترجمہ: جس نے ہمیں دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں۔

3۔عن سفیان بن أسید الحضرمي قال : سمعت رسول اللہ ﷺ یقول کبرت خیانۃ أن تحدث أخاک حدیثًا ہو لک بہ مصدق وأنت لہ بہ کاذب ۔ (سنن ابوداؤد : 679)
ترجمہ::سفیان بن اسید حضرمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: یہ بہت بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے ایسی بات بیان کرو جسے وہ تو سچ جانے اور تم خود اس سے جھوٹ کہو۔

4۔”حدثنا وكيع قال: سمعت الأعمش
قال: حدثت عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يطبع المؤمن على الخلال كلها إلا الخيانة والكذب.”
(مسند الإمام أحمد بن حنبل::رقم الحدیث: 22170)
ترجمہ: حضرت ابو امامہ نے فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جو مسلمانوں کو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں۔۔

5۔حدثنا سفيان، عن الأعمش، عن عبد الله بن مرة، عن مسروق، عن عبد الله بن عمرو أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ” أربع من كن فيه كان منافقا خالصا، ومن كانت فيه خصلة منهن كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها: إذا اؤتمن خان، وإذا حدث كذب، وإذا عاهد غدر، وإذا خاصم فجر. تابعه شعبة، عن الأعمش.”
(صحیح البخاری : رقم الحدیث: 34)
ترجمہ: اعمش بن عبیداللہ بن مرہ سے نقل کرتے ہیں، وہ مسروق سے، وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چار عادتیں جس کسی میں ہوں تو وہ خالص منافق ہے اور جس کسی میں ان چاروں میں سے ایک عادت ہو تو وہ (بھی) نفاق ہی ہے، جب تک اسے نہ چھوڑ دے۔ (وہ یہ ہیں) جب اسے امین بنایا جائے تو (امانت میں) خیانت کرے اور بات کرتے وقت جھوٹ بولے اور جب (کسی سے) عہد کرے تو اسے پورا نہ کرے اور جب (کسی سے) لڑے تو گالیوں پر اتر آئے۔ اس حدیث کو شعبہ نے (بھی) سفیان کے ساتھ اعمش سے روایت کیا ہے۔
**********
کتب فتاوی سے
6۔”تعدي الأجير هو أن يعمل عملا أو يتحرك حركة مخالفتين لأمر الآجر صراحة أو دلالة.
(درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام ,کتاب الاجارۃ، باب فی بیان الضمانات:1/ 707)

7۔وہوالأجیر الخاص ویسمی أجیر وحد وہو من یعمل لواحدٍ عملاً موقتاً بالتخصیص ویستحق الأجر بتسلیم نفسہ في المدۃ وإن لم یعمل کمن استؤجر شہراً للخدمۃ أو شہراً لرعي الغنم المسمی بأجر مسمی ۔۔۔۔ ولیس للخاص أن یعمل لغیرہ ، ولو عمل نقص من أجرتہ بقدر ما عمل ۔۔۔۔۔ وإن لم یعمل أي إذا تمکن من العمل فلو سلم نفسہ ولم یتمکن منہ لعذر کمطر ونحوہ لا أجر لہ”.
(الدر المختار مع رد المحتار: 82/9)
اردو فتاوی سے:
8۔استاد کا کسی طالب علم کو پرچہ حل کروانا جب کہ انتظامیہ کی طرف سے اس کی ممانعت ہو؛ درست نہیں ہے اور اس صورت میں کسی قابل شاگرد کا نقل کرنے اور پرچہ حل کروانے کے خلاف اساتذہ کو رپورٹ کرنا بے ادبی اور بداخلاقی نہیں ہے؛ بلکہ یہ اپنے حق کو وصول کرنا ہے۔
(آپ کے مسائل اور اُن کا حل:300/7)

واللہ سبحانہ اعلم
25 صفر 1444ھ
22 ستمبر، 2022ء

اپنا تبصرہ بھیجیں