آدھے پاؤں اور رستے زخم کے ساتھ امامت کا حکم

سوال: ایک آدمی کو بچپن میں پاؤں پہ ایک دانہ بنا جو پھیلتا گیا جس کی وجہ سے آپریشن ہوا اور ڈاکٹر نے آدھا پاؤں کاٹ دیا اب بھی پاؤں پہ زخم ہے اور اس زخم سے تھوڑا تھوڑا پانی رستہ ہے جس کی وجہ سے پاؤں پہ پٹی باندھ کے رکھتے ہیں کیا یہ آدمی امامت کروا سکتا ہے؟
الجواب باسم ملھم الصواب:
اگر زخم سےخون یا پیپ یا پانی اتنا زیادہ بہتا ہو کہ اتنا وقفہ بھی نہ ملے کہ جس میں وضو کرکے پاکی کی حالت میں چار رکعت نماز ادا کرسکیں تو ایسا شخص معذور ہے اور معذور کے پیچھے غیر معذور مقتدیوں کی نماز ادا نہیں ہوتی ، اس لیے معذور ہونے کی صورت میں وہ امامت نہ کرائے۔
اور اگر اس کو اتنا وقت ملتا ہو کہ زخم سے خون یاپیپ بہے بغیر چار رکعت نماز ادا کرسکے تو وہ شخص شرعاً معذور کے حکم میں نہیں ہوگا، اس صورت میں طہارت کا مکمل اہتمام کرتے ہوئے امامت کرنا جائز ہوگا ، تاہم نماز کے درمیان پیپ یا خون یا پانی نکل جائے اور اپنی جگہ سے بہہ پڑے تو پھر وضو ٹوٹ جائے گا اور نماز فاسد ہو جائے گی، نماز اور وضو کا اعادہ لازمی ہوگا ۔

2: پاؤں سے معذورشخص صحت مند لوگوں کی امامت کر سکتا ہے جب کہ وہ منصب امامت کا اہل ہو۔ اگرچہ دوسرے لوگ غیر معذور موجود ہوں، چنانچہ روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن مکتوم اور عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ کو اپنی عدم موجودگی میں مدینہ منورہ کا امام بنایا تھا ۔
البتہ صورت ِ مسئولہ میں ان صاحب کیلئے نمبر ایک میں ذکرکردہ شرائط کی پابندی کرنا ضروری ہے،اسکے بغیر ان کی امامت جائزنہیں ہوگی
~~~~~~~~~
حوالہ جات:
1۔(الصحیح البخاری حدیث: 425)
عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ الأَنْصَارِيُّ، أَنَّ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ وَهُوَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مِنَ الأَنْصَارِ أَنَّهُ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ أَنْكَرْتُ بَصَرِي، وَأَنَا أُصَلِّي لِقَوْمِي فَإِذَا كَانَتِ الأَمْطَارُ سَالَ الوَادِي الَّذِي بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ، لَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ آتِيَ مَسْجِدَهُمْ فَأُصَلِّيَ بِهِمْ، وَوَدِدْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَّكَ تَأْتِينِي فَتُصَلِّيَ فِي بَيْتِي، فَأَتَّخِذَهُ مُصَلًّى، قَالَ: فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سَأَفْعَلُ إِنْ [ص:93] شَاءَ اللَّهُ» قَالَ عِتْبَانُ: فَغَدَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ حِينَ ارْتَفَعَ النَّهَارُ، فَاسْتَأْذَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَذِنْتُ لَهُ، فَلَمْ يَجْلِسْ حَتَّى دَخَلَ البَيْتَ، ثُمَّ قَالَ: «أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ مِنْ بَيْتِكَ» قَالَ: فَأَشَرْتُ لَهُ إِلَى نَاحِيَةٍ مِنَ البَيْتِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَبَّرَ، فَقُمْنَا فَصَفَّنَا فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ، قَالَ وَحَبَسْنَاهُ عَلَى خَزِيرَةٍ صَنَعْنَاهَا لَهُ،
ترجمہ:ابن شہاب کے واسطہ سے بیان کیا کہ مجھے محمود بن ربیع انصاری نے کہ عتبان بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی اور غزوہ بدر کے حاضر ہونے والوں میں سے تھے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یا رسول اللہ! میری بینائی میں کچھ فرق آ گیا ہے اور میں اپنی قوم کے لوگوں کو نماز پڑھایا کرتا ہوں لیکن جب برسات کا موسم آتا ہے تو میرے اور میری قوم کے درمیان جو وادی ہے وہ بھر جاتی ہے اور بہنے لگ جاتی ہے اور میں انہیں نماز پڑھانے کے لیے مسجد تک نہیں جا سکتا یا رسول اللہ! میری خواہش ہے کہ آپ میرے گھر تشریف لائیں اور (کسی جگہ) نماز پڑھ دیں تاکہ میں اسے نماز پڑھنے کی جگہ بنا لوں۔ راوی نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبان سے فرمایا، انشاء اللہ تعالیٰ میں تمہاری اس خواہش کو پورا کروں گا۔ عتبان نے کہا کہ (دوسرے دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب دن چڑھا تو دونوں تشریف لے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اندر آنے کی اجازت چاہی، میں نے اجازت دے دی۔ جب آپ گھر میں تشریف لائے تو بیٹھے بھی نہیں اور پوچھا کہ تم اپنے گھر کے کس حصہ میں مجھ سے نماز پڑھنے کی خواہش رکھتے ہو۔ عتبان نے کہا کہ میں نے گھر میں ایک کونے کی طرف اشارہ کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اس جگہ) کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی ہم بھی آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور صف باندھی پس آپ نے دو رکعت (نفل) نماز پڑھائی پھر سلام پھیرا۔ عتبان نے کہا کہ ہم نے آپ کو تھوڑی دیر کے لیے روکا اور آپ کی خدمت میں حلیم پیش کیا جو آپ ہی کے لیے تیار کیا گیا تھا۔

2:فتاوی شامی میں ہے:
“(وينقضه) خروج منه كل خارج (نجس) بالفتح ويكسر (منه) أي من المتوضئ الحي معتادا أو لا، من السبيلين أو لا (إلى ما يطهر) بالبناء للمفعول: أي يلحقه حكم التطهير.ثم المراد بالخروج من السبيلين مجرد الظهور وفي غيرهما عين السيلان ولو بالقوة، لما قالوا: لو مسح الدم كلما خرج ولو تركه لسال نقض وإلا لا، كما لو سال في باطن عين أو جرح أو ذكر ولم يخرج.”
کتاب الطہارۃ ، 1/ 134،ط: سعید)

3: وفیہ ایضا:
“وصاحب عذر من به سلس بول لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة) بأن لا يجد في جميع وقتها زمناً يتوضأ ويصلي فيه خالياً عن الحدث (ولو حكماً)؛ لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرةً (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقةً)؛ لأنه الانقطاع الكامل.(وحكمه: الوضوء) لا غسل ثوبه ونحوه (لكل فرض) اللام للوقت كما في – ﴿ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ ﴾ ، (ثم يصلي) به (فيه فرضاً ونفلاً)، فدخل الواجب بالأولى (فإذا خرج الوقت بطل).”

(1/ 305، کتاب الطہارۃ، مطلب فی احکام المعذور، ط: سعید)

4: وکذلک تکرہ خلف ۔۔۔۔اعرج یقوم ببعض قدمہ،فاالاقتداء بغیرہ اولی۔۔۔ والظاہر ان العلۃ النفرۃولذا قید الابرص بالشیوع لیکون ظاہرا۔
(شامی 1/562)

5: ورد فی الأعمی نص خاص ھو استخلافہ صلی اللہ علیہ وسلم لابن ام مکتوم و عتبان علی المدینۃ وکانا اعمیین، لانہ یبقی من الرجال من ھو اصلح منھا۔
(شامیہ،باب الامامۃ 1/ 560)۔
(کتاب النوازل 5/359)

فقط واللہ تعالی اعلم وعلمہ اتم.
27 ستمبر 2022ء
30 صفر المظفر 1444ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں