بینک میں ملازم دیور کے گھر سےکچھ کھانا پینا

میرے دیور بینک میں کام کرتے ہیں۔ میری دیورانی جب کبھی ہمارے گھر کھانا وغیرہ بھجواتی ہیں تو میں ملازموں کو دے دیتی ہوں۔ لیکن کبھی اگر ان کے گھر جائیں تو تھوڑا بہت کھانا کھانا پڑتا ہے ۔ میری رہنمائی کردیجیے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے کہ میری رشتہ داری بھی خراب نہ ہو۔ میں نے سنا تھا کہ اگر ان کی آمدنی میں سے کچھ کھا لیں تو اتنی رقم صدقہ کر دیں کیا یہ کیا جا سکتاہے؟
اور اگر یہ طریقہ درست نہیں تو پھر کیا کرنا چاہیے کیونکہ قریب کی رشتہ داری ہے۔
تنقیح:بینک میں ملازمت کی نوعیت کیا ہے؟
جواب تنقیح: گڑید ون آفیسر ہیں۔
الجواب باسم ملہم الصواب

اگر آپ کے دیور سودی بینک میں براہ راست سودی حساب و کتاب اور سودی لین دین کے شعبے میں کام کرتے ہیں اور اس کے علاوہ ان کا کوئی حلال ذریعہ آمدن نہیں ہے، تو ان کے ہاں کھانا پینا وغیرہ درست نہیں ہے۔اور اگر کوئی تحفہ وغیرہ لینا پڑے تو اس کو صدقہ کر دیں خود استعمال نہ کریں۔
البتہ اگر بینک میں ان کی ذمہ داری براہ راست سودی لین دین کے شعبے میں نہیں ہے، تو ان کے ہاں کھانا وغیرہ کھا سکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات :

1.عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ»، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ.
(صحیح مسلم : 1598) 
ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ تعالی  عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور اس کے دونوں گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا: (گناہ میں) یہ سب برابر ہیں۔
—————————————
1.آكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لا يقبل، ولا يأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالا لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط.
(الفتاوی ھندیہ:جلد: 5، صفحہ: 343)

2.أهدى إلى رجل شيئاً أو أضافه، إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس، إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لايقبل الهدية ولايأكل الطعام، إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع ۔ ولا يجوز قبول هدية أمراء الجور ؛ لأن الغالب في مالهم الحرمة إلا إذا علم أن أكثر ماله حلال، بأن كان صاحب تجارة أو زرع فلا بأس به ؛ لأن أموال الناس لا تخلو عن قليل حرام، فالمعتبر الغالب، وكذا أكل طعامهم”
(الفتاوی الھندیۃ: جلد 5، صفحہ 342)

3.(قولہ الحرام ینتقل) ای تنتقل حرمتہ وان تداولتہ الایدی وتبدلت الاملاک، قولہ: ولا للمشتری منہ فیکون بشرائہ منہ مسیئا لانہ ملکہ بکسب خبیث وفی شرائہ تقریر للخبث ویؤمر بما کان یؤمر بہ البائع من ردہ علی الحربی”
(الفتاوی شامیہ: جلد 4، صفحہ 149)
—————————————-
1.شریعت کا اصول یہ ہےکہ اگرایک مال حرام اور حلال سے مخلوط ہو اور حرام مال زیادہ ہوتو اس سے تنخواہ یا ہدیہ لیناجائز نہیں،لیکن اگر حرام مال کم ہو توجائز ہے۔بینک کی صورتحال یہ ہے کہ اس کامجموعی مال کئی چیزوں سے مرکب ہوتاہے۔
1.اصل سرمایہ
2.ڈپازیٹرز کے پیسے
3.سود اور حرام کاموں کی آمدنی
4.جائز خدمات کی آمدنی
اس سارےمجموعے میں صرف 3 حرام ہے،باقی کو حرام نہیں کہا جاسکتا اور چونکہ ہر بینک میں 1 اور 2 کی اکثریت ہوتی ہے اس لیے یہ نہیں کہہ سکتےکہ مجموعے میں حرام غالب ہے۔
(فتاوی عثمانی: جلد 3، صفحہ 395)
——————————————-
واللہ اعلم بالصواب
20 اگست2022
22محرم 1444

اپنا تبصرہ بھیجیں