اہل تشیعہ کی شادی میں شرکت

قریبی رشتے دار کے بیٹے کی شادی شیعہ لڑکی کے ساتھ ہے تو ان کی شادی میں شریک ہونا اور کھانا کھانا کیسا ہے؟
دلہن کو کلمہ پڑھا کر مسلمان کیاہےاور دعوت کا کھانادولہا اور دلہن دونوں کی طرف سے ہے؟

الجواب باسم ملہم الصواب
واضح رہے کہ عام حالات میں شیعہ حضرات کی دعوت قبول کرنا جائز ہے، البتہ جہاں دعوت قبول کرنے سے عقائد کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو یا اہل تشیع کے نظریات کی حوصلہ افزائی ہوتو پھر وہاں دعوت قبول نہیں کرنی چاہیے۔
مذکورہ صورت میں چونکہ لڑکی نے کلمہ پڑھ لیا ہے لہذا اس شادی میں شامل ہونے اور کھانا کھانے کی گنجائش ہوگی،بشرطیکہ دعوت حلال کمائی سے ہو اور دیگر مفاسد نہ پائے جائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتّٰى يُؤْمِنَّ
(سورۃ البقرہ:221 )
ترجمہ: اور مشرک عورتیں جب تک ایمان نہ لائیں ان سے نکاح نہ کرو۔
—————————————–
1۔وبهذا ظهر أن الرافضي إن كان ممن يعتقد الألوهية في علي أو أن جبريل غلط في الوحي أو كان ينكر صحبة أبي بكر الصديق أو يقذف عائشة الصديقة فهو كافر؛ لمخالفة القواطع المعلومة من الدين بالضرورة“۔
(فتاوی شامیہ: ج 3، ص 46)
2۔لا يجوز نكاح المجوسيات ولا الوثنيات وسواء في ذلك الحرائر منهن والإماء كذا في السراج الوهاج ويدخل في عبدة الأوثان عبدة الشمس والنجوم والصور التي استحسنوها والمعطلة والزنادقة والباطنية والإباحية وكل مذهب يكفر به معتقده كذا في فتح القدير۔(الفتاوی الھندیۃ: ج1،ص282)
3۔ومنها أن يكون للزوجين ملة يقران عليها۔
(بدائع الصنائع: ج:3، ص 458)
4۔ومنها أن لا تكون المرأة مشركة إذا كان الرجل مسلما  فلا يجوز للمسلم أن ينكح المشركة لقوله تعالى { ولا تنكحوا المشركات حتى يؤمن } ويجوز أن ينكح الكتابية لقوله عز وجل{والمحصنات من الذين أوتوا الكتاب من قبلكم} والفرق أن الأصل أن لا يجوز للمسلم أن ينكح الكافرة لأن ازدواج الكافرة والمخالطة معها مع قيام العداوة الدينية لا يحصل السكن والمودة الذي هو قوام مقاصد النكاح
(بدائع الصنائع: ج 3،ص458)
———————————————–

1۔شیعہ کے یہاں کھانا بھی درست ہے ،الا یہ کہ اس بات کا علم ہوجائے کہ اس نے نجاست ملائی ہے۔
(کتاب النوازل: ج 16،ص 362)
———————

واللہ اعل بالصواب
12دسمبر 2023
29جمادی الاول 1445

اپنا تبصرہ بھیجیں