غیر مسلم سے جھاڑ،پھوک و تعویذ کے ذریعے علاج کروانا

سوال نمبر:(7/1106)غیر مسلم کے پاس جھاڑ ،پھونک، منتر اور تعویذ وغیرہ کروانا اور اجرت دینا کیسا ہے؟
سائل:یعقوب

الجواب حامداومصلیا
اپنے معاملات اور مسائل کے حل کے لیے ایک مسلمان کو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا چاہیے، مصیبت اور پریشانی کے وقت صلاۃ الحاجت پڑھ کر اور اپنے امور میں خیر اور بہتری کے لیے اللہ تعالیٰ سے خیروعافیت اوربہتری کی دعامانگنی چاہیے۔ غیرمسلم خود ایمان کی دولت سے محروم ہیں اور عام طور پرعملیات میں شرکیہ کلمات کا استعمال کرتے ہیں اورغیر اللہ سے مدد مانگتے ہیں؛ لہذا عام حالات میں ایسےغیر مسلم عاملوں سے جھاڑ ،پھونک، منتر اورتعویذ وغیرہ کروانااوران کوخلاف شرع منتر و تعویذ کی اجرت دینا جائز نہیں ۔اس کے بجائے ماثور دعائیں مثلاً معوذتین،آیت الکرسی وغیرہ کا اہتمام کرنا چاہیے اور اپنا علاج ایسے مسلمان عامل سے کروانا چاہیے جو خلاف شرع کام نہ کرے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اہلیہ حضرت زینب رضی اللہ عنہااپنے خاوند سے روایت کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کویہ فرماتے ہوئے سنا ہے: بے شک یہ (ناجائز) دم، منتر اور تعویذ گنڈے شرکیہ افعال میں سے ہیں، میں نے عرض کیا کہ:انہوں نے یہ کس وجہ سے کہا،بخدا میری آنکھ دکھتی تھی اور میں فلاں یہودی کےہاں دم کے لیے آیا جایاکرتی تھی، جب وہ دم کرتا تھا تو آنکھ ٹھیک ہوجاتی تھی، اس پر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ شیطان کا کام تھا، وہ تمہاری آنکھ میں انگلی سے تکلیف دیتا تھا، اور جب اس میں منتر پڑھا جاتا تو شیطان رک جاتا تھا، تمہارے لیےوہ دعا بالکل کافی تھی جو رسول اللہ ﷺ پڑھا کرتے تھے:
’’أَذْهِبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ، وَ اشْفِ أَنْتَ الشَّافِيْ، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاءُكَ، شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَماً‘‘.
ترجمہ: تکلیف دو کردیجیے اے لوگوں کے رب! اور شفا بخش دیجیے آپ ہی شفا دینے والے ہیں، آپ کی دی ہوئی شفا کے علاوہ کوئی شفا نہیں، ایسی شفا دے دیجیے جو کسی بیماری کو نہ چھوڑے۔ سنن ابی داؤد(4/9) رقم الحدیث: 3883
مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق مریض کو عام طور پر اپنی آنے والی بیماریوں کا علاج کسی مسلمان دیندارعامل سے کروانا چاہیے، تاہم اگر مسلمان عامل میسر نہ ہو اور غیر مسلم عامل اپنے اعلاج میں کوئی غیر شرعی افعال یا شرکیہ اور مبہم کلمات استعمال نہیں کرتا تو اس سے بھی علاج کروانے کی اور اس کی اجرت دینے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ اس کا اعزاز اور اس کے ساتھ عقیدت کا اظہار مقصود نہ ہو۔ کیونکہ رقیہ ایک علاج ہے اور غیر مسلم سے علاج کروانا جائز ہے۔
البتہ اگر کسی مریض پر ایسے جادو کا اثر ہوکہ مسلمان عامل سے مریض کو فائدہ نہ ہورہا ہواور کوئی دوسرا مفید علاج بھی میسر نہ ہو اور مریض کو جان کا خطرہ لاحق ہو گیا ہوتوایسی شدید مجبوری میں غیر مسلم عامل سے بھی اس کا علاج کروانے اور اجرت دینے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ غیر مسلم عامل مریض کو کوئی نجس وحرام چیز نہ کھلائے اور نہ ہی شرکیہ اور کفریہ کلمات مسلمان مریض سے کہلوائے۔
سنن أبي داود (4 / 9):
3883: عن زينب، امرأة عبد الله عن عبد الله، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إن الرقى، والتمائم، والتولة شرك» [ص:10] قالت: قلت: لم تقول هذا؟ والله لقد كانت عيني تقذف وكنت أختلف إلى فلان اليهودي يرقيني فإذا رقاني سكنت، فقال عبد الله: إنما ذاك عمل الشيطان كان ينخسها بيده فإذا رقاها كف عنها، إنما كان يكفيك أن تقولي كما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «أذهب البأس رب الناس، اشف أنت الشافي، لا شفاء إلا شفاؤك شفاء لا يغادر سقما»
مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح(7/2878):
”رقية فيها اسم صنم أو شيطان أو كلمة كفر أو غيرها مما لايجوز شرعاً، ومنها ما لم يعرف معناها“۔
رد المحتار (6 / 57):
لأن المتقدمين المانعين الاستئجار مطلقا جوزوا الرقية بالأجرة ولو بالقرآن كما ذكره الطحاوي؛ لأنها ليست عبادة محضة بل من التداوي۔
رد المحتار:(1 / 44)
وفي حاشية الإيضاح لبيري زاده قال الشمني: تعلمه وتعليمه حرام۔
أقول: مقتضى الإطلاق ولو تعلم لدفع الضرر عن المسلمين وفي شرح الزعفراني: السحر حق عندنا وجوده وتصوره وأثره. وفي ذخيرة الناظر تعلمه فرض لرد ساحر أهل الحرب، وحرام ليفرق به بين المرأة وزوجها، وجائز ليوفق بينهما۔۔۔۔۔ وللسحر فصول كثيرة في كتبهم. فليس كل ما يسمى سحرا كفرا۔۔۔۔الخ

الفتاوى الهندية (5 / 348):
لا بأس بأن يكون بين المسلم والذمي معاملة إذا كان مما لا بد منه كذا في السراجية۔
فتاوی دارالعلوم دیوبند:(16/360)
اگر سفلی جادو کا دفعیہ مسلمان عاملوں سے نہیں ہو پاتا ہے اور کوئی دوسرا جائز علاج مفید اور کارآمد نہیں ہو رہا ہے ، روز بہ روز سحر میں شدت بڑھتی جا رہی ہے اور مریض کو جان کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے تو شدید ضرورت اور مجبوری میں غیر مسلم سے اس کا علاج کراسکتے ہیں، بہ شرطیکہ وہ مریض کو کوئی نجس اور حرام چیز نہ کھلائے نہ شرکیہ اور کفریہ کلمات مسلمان مریض سے کہلوائے، بلکہ غیر مسلم عامل خود ہی اپنے عمل کے ذریعہ سحر کے مضر اثرات کو دفع کرے تو شدت تکلیف اور مجبوری کی حالت میں غیر مسلم معالج سے ایسا عمل کرانے کی گنجائش ہے اور اس کا معاوضہ اور اجرت بھی دے سکتا ہے۔
فتاوی رحیمیہ: (169/10)
جب کہ جان کا خطرہ لاحق ہے ۔ اور دوسرا جائز علاج کا رگر نہیں ہوتا اور مریض کو کوئی نجس اور حرم چیز کھانی نہیں پڑتی اور نہ شرکیہ اور کفر یہ کلمات زبان سے ادا کرنے پڑتے ہیں بلکہ غیر مسلم خود ہی اپنے عمل کے ذریعہ سحر کے مضر اثرات کو دفع کرتا ہے تو بوجہ مجبوری ایسا عمل کرانے اور اجرت دینے کی گنجائش ہے ۔
الجواب صحیح
فقط والله‫ اعلم بالصواب‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬
کتبہ:وقاص احمد عفی عنہ
دارالافتاءجامعۃ النوردھوراجی کراچی
۶/رجب/۱۴۴۵ھ
ء2024/دسمبر/18

اپنا تبصرہ بھیجیں