🎤 خلاصۂ خطاب :
مفتی ارشاد احمداعجازمدظلہم ، شریعہ ایڈوائزر اسلامی بینکنگ، اسٹیٹ بینک آف پاکستان
1۔انویسمنٹ کی ایک شکل مضاربت ہےجس میں انویسٹر کوعمل میں شریک نہیں کیاجاتا،دوسری شکل مشارکت کی ہے،جس میں انویسٹرعمل میں شریک ہوسکتا ہے۔
2۔شرکت عموماًچلتے ہوئے کاروبار میں ہوتی ہے۔
3۔مضارب کے اندرامین، وکیل اور شریک تینوں حیثیتیں جمع ہوتی ہیں۔البتہ تعدی ثابت ہوجائے تو وہ ضامن ہے۔
4۔مضاربت کے علاوہ مشارکت،وکالت اوراجارہ؛یہ سب عقود امانت ہیں۔
5۔عقود امانت میں غفلت اورتعدی کو ثابت کرنابہت مشکل ہوتاہے لیکن اگر پہلےسے کچھ قواعد مقرر کرلیےگئے ہوں تو ان قواعد کی خلاف ورزی تعدی شمار کی جائے گی۔
6۔کسی بھی طرح کی انویسمنٹ کے کچھ شرعی تقاضے ہوتے ہیں اور کچھ قانونی یا انتظامی۔شرکت میں شرعی تقاضے چارہیں:
شرکت کی چار شرعی بنیادیں:
الف: ملکیت،یعنی کاروبار کامالک کون ہے؟ تو اس کااصول یہ ہے کہ ملکیت انویسمنٹ کے تناسب سے قائم ہوگی۔
ب: نفع کی تقسیم کیسے ہو؟تو اس کااصول یہ ہے کہ پاٹنرز آزاد ہیں،جس طرح چاہیں نفع کاتناسب طے کرسکتے ہیں، بس اس کا خیال رہے کہ شریک غیر عامل کے نفع کا تناسب شریک عامل سے زیادہ نہ ہو۔
ج: نقصان ہوجائے تووہ کس کےذمہ ہوگا؟ توملکیت کی طرح اس کااصول بھی یہی ہے کہ نقصان انویسمنٹ کے تناسب سے عائد ہوگا۔
د: چوتھی چیز ہے انتظام اور ایڈمنسٹریشن، تو یاد رہے کہ انتظام میں شرکت ضروری نہیں۔اگر کوئی شریک کسی کام یامینجمنٹ میں حصہ نہ لے تو شرعاً اس کی اجازت ہے۔
کاروبار کی انتظامی بنیادیں:
انتظامی طور پرجوچیزیں ضروری ہیں، ان کی لمبی فہرست بن سکتی ہے ، تاہم کچھ ضروری پہلو یہ ہیں:
(1) کاروبار کی معلومات حاصل کرنی چاہییں۔تاجروں کے ہاں عموماًاس کے لیےدو تین مہینوں کا وقت لیاجاتا ہے ، ناگزیر وجوہات پیش آجائیں تو سال دوسال بھی لگ جاتے ہیں۔سوچنے کی بات ہے کیاہم ایسا کچھ کرتے ہیں؟
(2) معاہدے کوتحریری شکل دی جائے ؛تاکہ بوقت ضرورت کام آئے۔مناسب لگےتو ریکارڈنگ بھی کرلی جائے۔
(3) ماہانہ یاتین ماہ میں اجلاس ہو، جس میں ساری صورت حال بتائی جائے اور اس کی کاروائی کے منٹس بھی محفوظ کرلیے جائیں۔
(4) ہرماہ ہر شریک کو کتنے روپےکاروبار سے لینے کی اجازت ہوگی؟ یہ چیز طے ہو۔پھر سال کے آخر میں نفع نقصان کاتمام حساب سامنے آنے کے بعد ایڈجسمنٹ کرلی جائے۔
(5) کون سے اخراجات کاروبار کاحصہ سمجھے جائیں گے کون سے نہیں؟ یہ پہلےسے طے کرلیے جائیں۔
(6) کاروبار میں غفلت اور تعدی نہ ہو اس کے لیے کچھ قواعد مقرر کرلیے جائیں،ان قواعد کی خلاف ورزی تعدی شمار کی جائے۔
(7) کسی شریک کی موت ہوگئی تو کیاہوگا؟اس کوابھی سے طے کرلیاجائے۔
(😎 کوئی شریک بیچ میں نکلناچاہیں تو اس کاکیاطریقہ ہوگا؟اس کوبھی طے کرلیاجائے ۔اس میں یہ یاد رہے کہ فوری نکل رہا ہے تو ابھی موجودہ قیمت لگے گی لیکن اگر کئی سالوں بعد اس کواس کےپیسے دیے جارہے ہیں تو دیتے وقت جو اس کےسرمایے کی ویلیو بن رہی ہو وہ دینا ضروری ہے۔
(9) کسی شریک کواستحقاق ربح سے محروم نہیں کیاجاسکتا، ہاں نفع کی شرح کم کی جاسکتی ہے۔مثلاً کوئی نکلناچاہتا ہے تو یہ شرط کہ آئندہ چھ ماہ تک نفع سے محروم رہے گا، یہ غلط ہے ۔ اس کے بجائے یہ طے کیاجاسکتا ہے کہ نکلنے کی درخواست جس دن جمع کروائی ہے اس دن سے اس کے نفع کی شرح کم کردی جائے گی۔
(10) اس کے علاوہ انتظامی طور پر جتنے زیادہ چیزیں واضح ہوسکتی ہو آپ واضح کرلیں۔تفصیلات زیادہ سے زیادہ طے کریں تاکہ نزاع کم سے کم ہو۔
فریق ثانی کا سرمایہ معلوم ہونا ضروری ہے:
شرکت میں جیسے انویسٹرکا پیسہ معلوم ہوناضروری ہے اسی طرح فریق ثانی کے پیسے کی شرح معلوم ہونا بھی ضروری ہے۔اس میں اندازہ اور تخمینہ لگاناجائز توہے لیکن بعد میں جاکر اس سے نزاع پیدا ہوسکتا ہے اس لیے صحیح ویلیو لگانی چاہیے۔اس کے بغیرراس المال معلوم نہیں ہوگا۔نفع کی شرح اسی وقت صحیح معلوم ہوسکتی ہے جب راس المال دونوں کامعلوم ہو۔
فراڈ سے بچنے کے لیے چند اہم ہدایات:
1. عوام کوکسی کاروبار میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے سوچناچاہیے کہ یہ اسکیم عقلاًممکن ہے بھی یا نہیں۔نان رجسٹرڈ اور بہت زیادہ منافع کا لالچ دینے والی اسکیموں میں اس قاعدے کو ضرور مدنظر رکھیں۔
2. مفتیان کرام کا کام کسی کاروبار کا شرعی پہلوؤں سے جائزہ لے کر اس کے جائز یاناجائز ہونے کافتوی دیناہے ، باقی یہ کہ عملاً یہ نفع ممکن ہے یانہیں؟ یہ ان کی فیلڈ کا کام نہیں، اس لیے اس کے لیے اس فیلڈ کے لوگوں سے اور تاجروں سے مشاورت کرنی چاہیے ۔ جیسے مرغن غذائیں کھاناجائز ہے لیکن جس کاپیٹ خراب ہو اس کو پہلے ڈاکٹرسے مشورہ لیناچاہیے ، اگر کسی مفتی سے پوچھے گاکہ مرغن غذائیں کھاناجائز ہے یانہیں؟تو وہ یہی کہیں گے کہ جائز ہےلیکن حکیم آپ کی تشخیص کے بعد آپ کو احتیاط کرنے کاکہے گا۔
3. عوام کوچاہیے کہ وقتاًفوقتاً ایسی ورکشاپس میں شرکت کرتے رہیں جن سے ان کی نالج میں اضافہ ہو اور کسی بھی کاروبار سمجھنے میں معاونت ملے۔
مفتیان کرام کے لیے تجاویز:
1۔مفتیان کرام کو بھی چاہیے کہ مالایمکن عقلا لایمکن شرعا کے تحت سوچاکریں کہ یہ اسکیم عقلا ممکن ہے بھی یا نہیں۔اگر شرعاًجائز نظرآرہی ہو لیکن عقلاً فراڈ لگ رہا ہو تو احتیاط کامشورہ دیں یاایساجواب دیں جس کو وہ کمپنی اپنے مفاد میں استعمال نہ کرسکے۔
2۔ کاروبار کومارکیٹ سے جاکر سمجھنے کی کوشش کریں۔مختلف کاروباری معاملات کو ان کے کاغذات کی مدد سےسمجھنے کی کوشش کیاکریں۔
3۔کوئی کاروبار ناجائز ہو تواس کاحل بتایاکریں؛کیونکہ اگرآپ نے ہرکاروبار کوناجائز کہا اورضرورت کے باوجود حل کوئی نہیں بتایا تو ممکن ہے کہ سائل متنفر ہوجائے اور علماکے پاس آناچھوڑدے۔
4. ان تمام شرعی اور انتظامی امور پر مشتمل ایک سوال نامہ تیار کریں اور جب بھی کوئی کمپنی آپ کے پاس فتویٰ لینے کے لیے آئے تو تنقیح کے لیے یہی سوال نامہ ان کے حوالے کردیا کریں۔
تلخیص واختصار: محمد انس عبد الرحیم
داراالافتاء النور، مدیر صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر
Load/Hide Comments