سورہ فاتحہ پہلے پارے کاحصہ ہے یا نہیں؟

سوال: مجھے کسی نے پوچھا ہے کہ سورت فاتحہ پہلے پارے کا حصہ ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو قرآن پاک میں الٓم پارہ سورہ فاتحہ سے کیوں نہیں شروع ہوتا ؟
الجواب باسم ملھم الصواب
سورۃ فاتحہ قرآن پاک کی ابتدائی سورت ہے ، اسے الٓم پارہ میں لکھنے یا نہ لکھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
کیونکہ یہ بات ثابت ہے کہ سورہ فاتحہ گویا متن ہے اور باقی قرآن اس کی شرح ہے، پس اس اعتبار سے سورہ فاتحہ نہ قرآن سے خارج ہے نہ کسی ایک پارے کا حصہ ، بلکہ تمام پاروں کے درمیان مشترک ہے۔
نیز قرآن پاک کی تیس پاروں میں تقسیم صحابہ کرام کے زمانے کے بعد کے بزرگوں نے بچوں کی تعلیمی سہولت کی خاطر کی تھی اس لیے اگر سورہ فاتحہ کو خاص طور پہلے پارے کا حصہ نہ بنایا جائے تو شرعی لحاظ سے اس میں کوئی اشکال کی بات نہیں۔

==============
حوالہ جات :
1 ۔”وعن أبي سعيد بن المعلى قال : كنت أصلي في المسجد فدعاني النبي صلى الله عليه و سلم فلم أجبه حتى صليت ثم أتيته۔فقلت يا رسول الله إني كنت أصلي فقال ألم يقل الله ( استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم )
ثم قال لي : ”ألا أعلمك أعظم سورة في القرآن قبل أن تخرج من المسجد ۔” فأخذ بيدي فلما أراد أن يخرج قلت له ألم تقل لأعلمنك سورة هي أعظم سورة من القرآن قال : ( الحمد لله رب العالمين ) هي السبع المثاني والقرآن العظيم الذي أوتيتہ “۔( صحیح بخاری : حدیث :4474)۔
ترجمہ :
سیدنا ابو سعید بن معلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نماز پڑھ رہا تھا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے پاس سے گزرے اور مجھے بلایا، لیکن میں تو نہ آ سکا، حتیٰ کہ میں نے نماز مکمل کی اور پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے پاس آنے میں کیا رکاوٹ تھی؟ میں نے کہا: جی میں نماز پڑھ رہا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کہا: کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ {یَا أَ یُّہَا الَّذِینَ آمَنُوْا اسْتَجِیبُوا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیکُمْ}
”اے ایمان لانے والو، اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیّک کہو جبکہ رسول تمہیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں مسجد سے نکلنے سے پہلے قرآن مجید کی سب سے عظیم سورت نہ سکھاؤں؟ پھر جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسجد سے نکلنے لگے تو میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یاد کرایا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ سورۂ فاتحہ ہے،یہی وہ سات آیتیں ہیں اور قرآن عظیم ہے جو میں دیا گیا ہوں۔

۔ 2 ۔” لأن الابتداء کتابۃ أو تلاوۃ أو نزولا علی قول أو صلاۃ بہا۔ (روح المعاني : 62/1) ۔

3 ۔ ” سورہ فاتحہ بلاشبہ قرآن پاک کا ہی جز ہے۔( کتاب النوازل : 262/2)۔

4 ۔ ”سورہ فاتحہ ( الحمد شریف) بالیقین قرآن کریم کی سورت ہے، مصحف عثمانی میں سب سے پہلے سورہ فاتحہ ہے پھر سورہ بقرہ“ ۔
(فتاوی محمودیہ :505/3)۔

”سورہ فاتحہ متن کے درجہ میں ہے اور قرآن کریم اس کی شرح کے درجہ میں۔ پس اس اعتبار سے یہ سورت قرآن کریم کا حصہ تو ہے لیکن کسی متعین پارے کا حصہ نہیں، بلکہ سب سورتوں میں مشترک ہے“۔
(جامع الفتاوی بحوالہ احسن الفتاوی :325/1)۔

واللہ اعلم بالصواب۔
6 ربیع الثانی 1444
یکم نومبر 2022۔

اپنا تبصرہ بھیجیں