تعارف وخلاصہ مضامین

اپنے مضامین کے اعتبار سے یہ پچھلی سورت یعنی سورۂ انفال کا تکملہ ہے۔غالباً اسی لیے عام سورتوں کے برخلاف اس سورت کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ نازل ہوئی نہ لکھی گئی ۔ اس کی تلاوت کا قاعدہ بھی یہی ہے کہ جو شخص پیچھے سورۂ انفال سے تلاوت کرتا چلا آرہا ہو اسےیہاں بسم اللہ نہیں پڑھنی چاہیے۔البتہ جو تلاوت کی شروعات ہی سورہ توبہ سے کرے تو راجح یہ ہے کہ وہ بسم اللہ پڑھ سکتا ہے۔ بعض لوگوں نے اس سورت کے شروع میں بسم اللہ کے بجائے کچھ او رجملے پڑھنے کے لیے بنارکھے ہیں وہ بے بنیاد ہیں اوپر جو طریقہ لکھا گیا ہے وہی سلف صالحین کا طریقہ رہا ہے۔
سورہ انفال اور سورہ توبہ مضامین کے لحاظ سے تو ایک جیسی ہیں لیکن ان میں یہ فرق ضرور ہے کہ سورہ انفال غزوہ بدر کے بعد2 ہجری میں نازل ہوئی تھی جبکہ سورہ توبہ فتح مکہ کے بعد9ہجری میں ۔ اس طرح دونوں کے نزول میں چھ سے سات سال کا فاصلہ ہے۔
اسلام کے ظہور کے بعد عرب کے بہت سے قبائل اس انتظار میں تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کفار قریش کی جنگ کا انجام کیا ہوتا ہے۔ جب قریش نے حدیبیہ والا معاہدہ(دس سالہ جنگ بندی کامعاہدہ) توڑدیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ پر حملہ کیا او رکسی خاص خونریزی کے بغیر اسے فتح کرلیا اس موقع پر کفار کی کمرٹوٹ چکی تھی،البتہ آخری تدبیر کے طور پر قبیلہ ہوازن کے کفارنے ایک بڑا لشکر مسلمانوں سے مقابلے کے لیے جمع کیا جس سے حنین کی وادی میں آخری بڑی جنگ ہوئی اس جنگ میں مسلمانوں کو شروع میں معمولی ہزیمت ہوئی لیکن بالآخر مسلمانوں کو اس میں بھی فتح ہوئی اس جنگ کے بعض واقعات بھی اس سورت میں بیان ہوئے ہیں۔ اب عرب کے جو قبائل قریش کی وجہ سے اسلام قبول کرنے سے ڈرتے تھے یا ان کی جنگوں کے آخری انجام کے منتظر تھے ان کے دل سے اسلام کے خلاف ہر رکاوٹ دور ہوگئی اور وہ جوق در جوق مدینہ منورہ آکر مسلمان ہوئے او راس طرح جزیرۂ عرب کے بیشتر علاقے پر اسلام کا پرچم لہرانے لگا ۔
اس موقع پر اللہ تعالی کی طرف سے جزیرۂ عرب کو اسلام اور مسلمانوں کا بنیادی مرکز قرار دے دیاگیا ۔ اصل منشاء تویہ تھا کہ پورے جزیرۂ عرب میں کوئی بھی غیر مسلم مستقل باشندے کی حیثیت میں باقی نہ رہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ جزیرہ ٔعرب میں دو دین باقی نہ رہنے پائیں۔ (مؤطا امام مالک،کتاب الجامع ومسند احمد ج:٦ ص:۵۷۲)
لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے تدریج کا طریقہ اختیار کیاگیا ،سب سے پہلا ہدف یہ مقرر فرمایاگیا کہ جزیرۂ عرب کو بت پرستوں کی نجاست سےپاک کیا جائے،چنانچہ جو بچے کھچے بت پرست عرب میں رہ گئے تھے اورجنہوں نے بیس سال سے زیادہ مدت تک مسلمانوں کو وحشیانہ مظالم کا نشانہ بنایاتھا،عہدتوڑے تھے،رشتے ناطوں تک کاخیال نہ رکھاتھا ان کو اس سورت کے شروع میں مختلف مدتوں کی مہلت دی گئی:
1۔بعض قبائل سے کوئی معاہدہ نہ تھا ۔
2۔بعض سے غیرمعینہ مدت کے لیے معاہدہ تھا ۔
ان دونوں قسم کے قبائل کوچارماہ کی مہلت دی گئی جس کی شرعات اس اعلان کے ان کے علم میں آنے کے بعد ہوگی۔
3۔تیسری قسم ان قبائل کی تھی جن سے معینہ مدت کے لیے معاہدہ تھا لیکن وہ عہد توڑتے رہتے تھے،جیسے قریش اور اس کے حلیف قبائل، ان کے لیے یہ حکم دیا گیا کہ محترم مہینے گزرنے کےفورا بعد ان پر لشکر کشی کرسکتے ہیں جس میں اگر وہ اسلام قبول نہ کریں تویاتو جزیرۂ عرب چھوڑدیں ورنہ جنگ کا سامنا کرنے کے لیے تیاررہیں۔
4۔چوتھی قسم کے قبائل وہ تھے جن سے معینہ مدت کے لیے صلح تھی اور وہ صلح کے پابند بھی تھے ان کے بارے میں کہا گیا کہ ان سے صلح کی مدت پوری کرکے ان پر لشکر کشی کریں۔
اس طرح مسجد حرام بت پرستی کی ہر نشانی سے پاک کرنے ہوجائے گا۔یہ ہدف آپﷺ کی زندگی میں پورا ہوگیا۔
اس ہدف کے پورا ہونے کے بعد جزیرہ ٔعرب کی مکمل صفائی کا دوسرا مرحلہ یہود ونصاری کو وہاں سے نکالنے کا تھا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں یہ مرحلہ مکمل نہیں ہوسکا تھا ،لیکن آپ نے اس کی وصیت فرمادی تھی جیسا کہ آیت نمبر:۲۹ میں اس کی طرف اشارہ بھی ہے۔حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اس وصیت کوعملی جامہ پہنایا اور جزیرۃ العرب کو یہود ونصاری سے پاک کردیا۔
اس سے پہلے روم کے بادشاہ نے مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھ کر ان پر حملہ کرنے کے لیے ایک بڑی فوج جمع کی،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیش قدمی کرکے اس کے مقابلے کے لیے تبوک تک تشریف لے گئے اس سورت کا بہت بڑا حصہ اس مہم کے مختلف پہلؤوں پر روشنی ڈالتا ہے۔منافقین کی معاندانہ کاروائیاں مسلسل جاری تھیں اس سورت میں ان کی بد عنوانیوں اور خفیہ رازوں سے بھی پردہ اٹھایاگیا ہے۔(مستفادازآسان ترجمۂ قرآن)

اپنا تبصرہ بھیجیں