وحی کی ضرورت واہمیت (گلدستہ قرآن تیسرا سبق)

وحی کی ضرورت واہمیت
ناک سے انسان سونگھ سکتا ہے دیکھ نہیں سکتا۔آنکھ سے دیکھ سکتا ہے سونگھ نہیں سکتا۔ہاتھ سے چھوسکتا ہے دیکھ اور سونگھ نہیں سکتا، ذائقہ محسوس نہیں کرسکتا۔زبان سےذائقہ محسوس کرسکتا ہے لیکن سمجھ نہیں سکتانہ دیکھ سکتا یا سونگھ سکتا ہے۔الغرض ہر حاسہ کا ایک خاص کام ہے جس سے دوسرا کام نہیں لیاجاسکتااس پر مستزاد یہ کہ جو کام لیا جاسکتا ہے وہ بھی محدود ہے لامحدود نہیں۔ ناک سے ایک خاص مسافت تک سونگھ سکتا ہے، اس سے دور نہیں۔آنکھ سے ایک خاص مسافت تک دیکھ سکتا ہے اس سے زیادہ نہیں۔اسی طرح عقل بھی ایک حس ہے جس سے انسان دوسرے حیوانات سے ممتاز ہوتا ہے لیکن عقل کی بھی ایک حد ہے اس سے آگے وہ بھی کام نہیں کرسکتی۔بہت سے سوالات ہیں جن کا جواب دینے سے عقل قاصر ہےاورعین یہی وہ حدہے جہاں سے وحی کی شروعات ہوتی ہے۔
انسان خود اپنے اوپر غور کرے کہ بچپن سے بڑھاپے تک اس کی عقل وشعور نے کتنی منازل طے کیں؟ جو چیز پچپن میں سمجھ نہیں آئی تھی ، جوانی اور شعور کی عمرمیں کس طرح سمجھ آگئی؟پھر انسانی عقلوں میں تفاوت بھی کوئی مخفی راز نہیں۔ایک ہی سبق ہوتا ہے لیکن کوئی بہت اچھا سمجھتا ہے کوئی کم۔ایک ہی فیلڈ کے دو ڈاکٹروں میں اختلاف رائے پیدا ہوجاتا ہے۔ایک ہی فن کے دو ماہرین کی رائے میں اختلاف ہوجاتا ہے۔میاں بیوی کا اپنی ہی اولاد کےمستقبل کے حوالے سے اختلاف ہوجاتا ہے۔سیاسی ،مذہبی غرض ہر ایشوپر لوگوں کی آرا میں اختلاف پایا جاتا ہے۔(ٹاک شوز اس کی واضح مثال ہے) یہ سب عقل وشعور کے مدارج کا فرق ہے۔
عقل وفہم کے اسی فرق کی وجہ سے بسا اوقات خیر کو شر اور شر کو خیر کہہ دیا جاتا ہے۔نیکی کو بدی اور بدی کو نیکی کہہ دیا جاتا ہے۔حق دار سے حق چھین لیا جاتا ہے اور ناحق کو نہال کردیا جاتا ہے۔انسانیت کے حق میں کیا چیز بہتر ہے اور کون سی چیز نقصان دہ ہے ؟ حتمی فیصلہ ہونہیں پاتا ۔ سکون کس چیز میں ہے؟راحت کس شےکا نام ہے؟انسان بھٹکتا پھرتا ہے لیکن ان سوالوں کے جواب حاصل نہیں کرپاتا۔
کیا یہ کائنات خود سے بن گئی ہے یا کوئی ہے جس نے اسے وجود دیا؟عقل سلیم یہی جواب دیتی ہے کہ کسی نے اسے پیدا کیا ہے،لیکن جس ہستی نے اسے پیدا کیا ہے اس کا مقصد کیا تھا؟وہ ہم سے کیا چاہتا ہے؟اس سے ہم بات کیسے کرسکتے ہیں؟ وہ اپنی بات ہم تک کیسے پہنچاتا ہے؟کیا اس کائنات کے بعد دوسرا بھی کوئی جہاں ہے؟ہماری ابتدا کیا ہے اور انتہا کیاہوگی؟ہم دوسرے حیوانات سے الگ کیوں ہیں؟ کائنات کی ہر بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی چیز انسانوں کے تابع کیوں ؟ یقینا ہم بہت بڑے خطرے اور خسارےمیں ہیں اگر ہمیں ان کے جواب معلوم نہ ہوں!!! کسی نے بالکل بجا کہا ہے کہ وحی کی روشنی کے بغیر عقل گمراہ ہے۔
پہلے زمانے کے رسم ورواج الگ تھے ، آج کے زمانے کے الگ ہیں۔پہلے زمانے کا خاندانی نظام الگ تھا آج کے دور میں الگ ہے۔ان میں سے صحیح غیر صحیح کا پتا کیسے چلے گا ؟ حاکم اور محکوم ، آقا اور ملازم کا رشتہ صدیوں سے قائم ہے لیکن کس کے کیا حقوق ہیں؟ اس کا صحیح رخ کس طرح متعین ہوسکتا ہے؟دل میں اٹھنے والی کون سی خواہشات اورجذبات کو انسان پورا کرسکتا ہے اور کن خواہشات اور احساسات کو دبا کر رکھنا ہے؟ کیا انسان دنیا کے فیصلے کرنے میں بالکل ہی آزاد وخود مختار ہے یا اسے کسی اصول اور قاعدے کا پابند رہنا ہے؟
الغرض ایسے کئی سوالات ہیں جن کا جواب انسانی عقل سے باہر ہے ۔ ان کے درست جواب کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ خود خالق ِ کائنات کی طرف سے راہ نمائی دی جائےاور ایسا ہی ہوا ہے اور یہی وحی ہے۔
اس حقیقت کو ایک مثال سے سمجھیے! موبائل اور کمپیوٹر میں جو پروگرام انسٹال کیے جاتے ہیں اور جتنی جی بی ڈیٹا کی اس کے اندر گنجائش ہوتی ہے اس سے زیادہ وہ لوڈ نہیں کرسکتا۔زیادہ لوڈ کیا جائے گا تو وہ خراب ہوجائے گا لیکن لوڈ نہیں اٹھائے گا۔جو پروگرام انسٹال کیا ہی نہیں گیا وہ اٹھائے گا کیسے؟ اسی طرح انسانوں کے اندر اللہ تعالی نے ہزارہا خوبیاں اور کمالات ودیعت فرمائےہیں لیکن ان سب کے باوجود وہ مخلوق ہی ہے اس کی عقل وشعور کی ایک خاص حد ہے اس سے آگے کا جواب اس کے پاس نہیں ہے اس سے اوپر کے سوالات کے جواب یا وہ دے ہی نہیں پائے گا یا دینے کی کوشش کرے گا تو غلطی کرجائے گا۔ وہ خالق ِکائنات ہی ہے جو ان کے جوابات ہمیں دے سکتا ہے۔
خالق کائنات نے ہر دور میں قوموں کے اندران کے سب سے معزز، وجیہہ، کامل عقل،نڈر اور صاف اور بے داغ کردار کے مالک اشخاص کو منتخب فرمایاہے۔ ان کو وحی کی ہےجس میں ان تمام سوالوں کا جواب موجود ہوتا ہے۔جب جب وحی کی ضرورت پڑی خالق کائنات نے وحی بھیجی۔
ہاں!آخری دور کے انسانوں کے اندر بلا کی عقل وسمجھ ہے، اس لیےخالق ِ کائنات نے آخری پیغمبر کو مبعوث کیااور اسے عالمگیر ، بہت سے مواقع پر لچک داراورانسانی خردبرد سے محفوظ ابدی اصول وحی کیےجس کے بعد نئی وحی کی ضرورت نہیں رہی۔
وحی کےمعنی اور نزولِ وحی کے طریقے
وحی کے لغوی معنی ہے۔خفیہ اشارہ جوتیزی سے کیاجائے۔وحی کے لغوی اطلاقات متعدد ہیں، الہام، ورغلانا،ہاتھ سے اشارہ کرنا،حکم دینا؛ یہ سب اس کے اطلاقات ہیں۔البتہ اصطلاح تفسیر کے مطابق نام ہے کلام اللہ المنزل علی نبی من انبیائہ ۔
نزول وحی کے متعد طریقے ہوئے:
1۔خواب۔نبیوں کے خواب وحی ہوتے ہیں۔
2۔الہام ربانی۔یادرہے کہ اولیائے کرام کو ہونے والا الہام وحی میں داخل نہیں۔وہ حجت نہیں۔نبیوں کو ہونے والا الہام حجت اور وحی ہے۔
3۔فرشتے کا انسانی صورت میں آنا۔جیسے:حضرت جبرئیل آپ ﷺ کی خدمت میں حضرت دحیہ کلبی کی صورت میں تشریف لاتے تھے۔
4۔فرشتے کا اپنی اصلی صورت میں آنا۔ایسا دوبار ہوا ہے۔ایک مقام اجیاد میں دوسرا معراج کے موقع پر ۔
5۔اللہ تعالی کاحجاب میں کلام فرمانا، جیسے: موسی علیہ السلام سے کوہ طور پر کلام فرمایا۔
6۔اللہ تعالی کا براہ راست کلام فرمانا،جیسے: معراج کے موقع پر براہ راست کلام ہوا۔
7۔صلصلۃ الجرس یعنی مسلسل گھنٹیوں کی آوازیں جو چاروں طرف سے آتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں۔وحی کی یہ کیفیت سب سے مشکل ترین ہوتی تھی۔سخت سردی میں بھی پیشانی مبارک سے پسینہ آجایا کرتا تھا۔ادھر یہ کیفیت ختم ہوتی ادھر آپ کو آیت یاد ہوتی۔
دومثالیں:
وحی کی کیفیت سمجھنے کے لیے دوبہت اچھی مثالیں ہیں ۔یہ مثالیں مفتی تقی عثمانی صاحب نے اپنی کتاب “علوم القرآن ” میں ذکر کی ہیں: ایک خواب اور دوسرا ہپناٹزم۔
خواب دیکھنے والاخواب میں بہت کچھ دیکھ رہا ہوتا ہےلیکن ہمیں کچھ پتا نہیں چلتا کہ وہ کیا دیکھ رہاہے۔اسی طرح نبیوں پر وحی نازل ہوتی تھی لیکن لوگوں کو کچھ نظر نہیں آتا تھا کہ کون آیا ہے اور کیا بات کی گئی ہے۔ہپناٹزم میں ماسٹر اپنے معمول کے ذہن کو اپنے قبضے میں لے لیتا ہے اور جو چاہتا ہے کرواتاہے۔اسی طرح فرشتہ یا اللہ تعالی اپنے نبیوں سے جو چاہتے ہیں کرواتے اور کہلواتے ہیں جو درحقیقت وحی ہوتی ہے۔
تفسیر قرآن کے مآخذ

اپنا تبصرہ بھیجیں